وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے جمعے کو کہا ہے کہ نگران وزیراعظم کے لیے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا نام کسی نے پیش نہیں کیا، لیکن اگر یہ فیصلہ ہوا کہ کوئی سیاست دان اس عہدے پر آسکتا ہے تو پھر وہ یقیناً اسحاق ڈار بھی ہوسکتے ہیں اور ان جیسا کوئی اور سیاست دان بھی ہوسکتا ہے۔
جیو نیوز کے مارننگ شو میں وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان سے نگران وزیراعظم کے لیے اسحاق ڈار کے نام کی بازگشت سے متعلق سوال کیا گیا، جس پر انہوں نے کہا: ’یہ کہنا درست نہیں کہ ایک نام آیا اور وہ مسترد ہوگیا۔ اسحاق ڈار کا نام کسی نے پیش نہیں کیا، نہ مسلم لیگ ن نے اور نہ مسلم لیگ ن کے کسی رہنما نے یہ بات کی۔ یہ افواہ ہوسکتی ہے۔ ایک افواہ ایک خبر بنا کر لیک کی گئی، اس کے بعد اس کی مسلم لیگ ن نے بھی تردید کی۔‘
ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ ’یہ ضرور ہے کہ یہ تجویز زیرغور ہے کہ کیا ایک نگران سیٹ اپ میں ٹیکنو کریٹ کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتا؟ سابق بیوروکریٹ یا جج کے علاوہ کوئی سیاست دان نہیں ہوسکتا؟ لیکن اس کے اوپر کوئی اتفاق رائے یا فیصلہ نہیں ہوا۔
’اگر یہ فیصلہ ہوا کہ کوئی سیاست دان (نگران وزیراعظم) ہوسکتا ہے تو پھر یقیناً وہ اسحاق ڈار بھی ہوسکتے ہیں اور ان جیسا کوئی اور سیاست دان بھی ہو سکتا ہے، کسی اور جماعت کا بھی کوئی رہنما ہوسکتا ہے۔‘
وزیر داخلہ نے مزید کہا: ’اور اگر اس پر اتفاق نہیں ہوتا تو پھر یقیناً کوئی سابق بیوروکریٹ ہوسکتا ہے، سابق جج ہوسکتا ہے لیکن اس میں ایک بنیادی چیز یہ ہے کہ وہ ایک ایسا شخص ہونا چاہیے جس کی ساکھ بہتر ہو، جس کے اوپر ایک عمومی اتفاق ہو کہ یہ آدمی اس کا اہل ہے اور یہ اپنی ذمہ دار بہتر انداز سے پوری کر سکتا ہے۔‘
گذشتہ دنوں پاکستانی میڈیا میں وزیرخزانہ اسحاق ڈار کو نگران وزیراعظم بنائے جانے کی قیاس آرائیاں کی گئیں اور اس حوالے سے ایک ٹی وی پروگرام میں جب مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اسحاق ڈار سے یہ سوال کیا گیا تو انہوں نے مبہم جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں جو ذمہ داری ملے گی، وہ اسے بخوبی نبھائیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نگران سیٹ اپ کے معاملے پر ممکنہ ڈیڈ لاک کے حوالے سے سوال کے جواب میں رانا ثنا اللہ نے اس کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’فیصلہ ہوچکا ہے۔ اسمبلی جس روز مدت پوری کر رہی ہے، اس سے 48 گھنٹے پہلے اسمبلی کو تحلیل کیا جائے گا تاکہ الیکش کمیشن کو 60 کے بجائے 90 دن میسر ہوں الیکشن کے انتظامات کرنے کے لیے۔ اس میں کسی قسم کی تاخیر یا ابہام کی گنجائش نہیں۔‘
موجودہ اتحادی حکومت کی مدت رواں برس اگست میں ختم ہونے جا رہی ہے، جس کے بعد نگران سیٹ اپ کے تحت ملک میں عام انتخابات کروائے جائیں گے۔
نگران سیٹ اپ کے حوالے سے اتحادی حکومت میں شامل بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے درمیان مشاورت جاری ہے، جس کے بعد نگران وزیراعظم کا اعلان کیا جائے گا۔
مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی عملی سیاست میں واپسی کے حوالے سے جماعت کے اندر اٹھنے والے سوالات کے حوالے سے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’یہی بات غلط فہمی پر مبنی ہے کہ یہ اختیار حکومت کا تھا۔ یہ حکومت کا اختیار نہیں تھا، سپریم کورٹ کا ایک ایسا فیصلہ تھا، جسے کوئی تسلیم نہیں کرتا اور سب کہتے ہیں کہ یہ ایک جانبدار فیصلہ تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’عدالتی فیصلوں کے ختم ہونے کا ایک طریقہ کار ہے اور اس طریقہ کار کو اپنا گیا، مریم نواز بری ہوئیں۔ نواز شریف کا واپس آنا اور اس طریقہ کار کو اپنانا آئین و قانون کا تقاضا ہے۔ وہ جب بھی آئیں گے تو اسی طریقہ کار کو اپنایا جائے گا، وہ حفاظتی ضمانت لیں گے، عدالت میں پیش ہوں گے، اپیلوں پر سماعت ہوگی اور اس کے بعد وہ بری ہوں گے اور انہیں ایک سازش کے تحت عملی سیاست سے جو الگ کیا گیا ہے اور ان پر جو پابندیاں لگائی گئی ہیں، وہ انشا اللہ ختم ہوجائیں گی۔‘