جے یو آئی جلسے پر حملہ، پہلا واقعہ نہیں ہے

خیبر پختونخوا کے ضلع ماجوڑ میں اتوار کو جمیعت علمائے اسلام کے ایک مقامی کنونشن کے دوران خود کش دھماکے میں 40 سے زائد افراد جان سے جاچکے ہیں۔ یہ جماعت اس سے قبل بھی متعدد مرتبہ حملوں کا نشانہ بن چکی ہے۔

 صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ میں 30 جولائی 2023 کو جمیعت علمائے اسلام کے ورکرز کنونشن کے دوران ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد ایک ایمبولینس میں زخمیوں کو ہسپتال لے جایا جا رہا ہے (ریسکیو 1122/روئٹرز)  

خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ میں اتوار کو جمیعت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے ایک مقامی کنونشن کے دوران حکام کے مطابق خودکش دھماکے میں 40 سے زائد افراد جان سے جاچکے ہیں۔

دھماکے کے نتیجے میں 100 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے، جنہیں ضلع دیر کے تیمرگرہ ہسپتال جبکہ بعض کو پشاور اور کمبائنڈ ملٹری ہسپتال منتقل کیا گیا۔

اب تک اس دھماکے کی ذمہ داری کسی شدت پسند تنظیم نے قبول نہیں کی، تاہم کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ترجمان محمد خراسانی اور ٹی ٹی پی کے سابق دھڑے جماعت الاحرار کے کمانڈر اور مرکزی ٹی ٹی پی کی شوریٰ کے رکن عمر خراسانی نے اس دھماکے کی مذمت کی ہے۔

اس دھماکے کی سیاسی رہنماؤں کی جانب سے شدید مذمت کی گئی جبکہ سعودی عرب اور امریکہ نے بھی اپنے بیانات میں باجوڑ دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے اس مشکل وقت میں پاکستانی حکومت اور عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔

عام تاثر یہ ہے کہ شدت پسند تنظیمیں مذہبی سیاسی جماعتوں کی طرف مثبت رجحان رکھتی ہیں، تاہم حالیہ کچھ عرصے کے دوران اور ماضی میں بھی پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

جمیعت علمائے اسلام کی بات کی جائے تو اس جماعت کی تقاریب کو 2011 میں ایک دن میں دو مرتبہ نشانہ بنایا گیا تھا، بعد میں بھی جے یو آئی پر کئی حملے ہوئے۔

صوابی دھماکہ، 2011

یکم اپریل 2011 کو جے یو آئی کی جانب سے خیبر پختونخوا میں ایک جلسہ منعقد کیا گیا تھا، جس میں پارٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی شرکت کی تھی۔ اس جلسے میں دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 10 افراد جان سے گئے تھے اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔

چارسدہ دھماکہ، 2011

اسی دن دوپہر کے بعد مولانا فضل الرحمٰن ضلع چارسدہ میں ایک اور تقریب میں شرکت کے لیے جا رہے تھے کہ راستے میں ان کی ریلی کو نشانہ بنایا گیا، جس میں 13 افراد جان سے گئے اور30 کے قریب زخمی ہوئے تھے۔

کرم دھماکہ، 2013

پانچ مئی 2013 کو پاکستان میں انتخابی مہمات جاری تھیں اور جمیعت علمائے اسلام کی جانب سے اسی سلسلے میں ضلع کرم میں جلسے کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس تقریب میں دھماکے کے نتیجے میں 23 افراد جان سے گئے تھے اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔

اس دھماکے کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ان کا ہدف جلسہ نہیں بلکہ کرم کی سیاسی شخصیت منیر اورکزئی تھے۔

 کوئٹہ دھماکہ، 2014

جے یو آئی کی سیاسی ریلی کو 2014 میں بھی کوئٹہ میں نشانہ بنایا گیا تھا اور پولیس کے مطابق شدت پسندوں کا نشانہ مولانا فضل الرحمٰن تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس دھماکے میں 11 افراد جان سے گئے تھے جبکہ 30 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ دھماکے کی ذمہ داری کسی تنظیم نے قبول نہیں کی تھی۔

بنوں دھماکہ، 2015

جے یو آئی کے مرکزی رہنما اور خیبر پختونخوا کے سابق وزیراعلیٰ اکرم خان درانی کی ریلی پر ان کے آبائی ضلع بنوں میں حملہ ہوا تھا۔ اس دھماکے میں وہ خود محفوظ رہے تھے، لیکن ان کی سکیورٹی پر مامور دو گارڈز جان سے گئے تھے۔

بنوں دھماکہ، 2018

2018 میں ضلع بنوں میں جے یو آئی کے اکرم خان درانی کو ایک بار پھر نشانہ بنایا گیا تھا لیکن وہ محفوظ رہے تھے۔ اس وقت اکرام خان درانی جنوبی وزیرستان میں انتخابی مہم کے سلسلے میں ایک تقریب میں شرکت کر کے واپس بنوں جا رہے تھے۔

پولیس کے مطابق اس دھماکے میں چار افراد جان سے گئے تھے اور 31 کے قریب زخمی ہوئے تھے۔ اکرم درانی اس وقت حلقہ این اے 35 سے قومی اسمبلی کے امیدوار تھے۔

جے یو آئی کے علاوہ پاکستان کی مذہبی سیاسی پارٹی، جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق کے قافلے پر بھی رواں سال مئی میں بلوچستان کے ضلع ژوب میں حملہ ہوا تھا، جس میں چھ افراد زخمی ہوئے تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان