صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ میں عمرے ماموند پولیس کے مطابق 26 اپریل کو علاقے کی ایک معتبر اور اثر رسوخ رکھنے والی شخصیت مفتی بشیر محمد کو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے سر پر گولیاں مار کر قتل کر دیا ہے۔
پولیس کے مطابق قتل کی اس واردات کے بعد باجوڑ میں ایک مرتبہ پھر خوف وہراس کی ایک فضا پھیل گئی ہے۔
نامعلوم افراد کی جانب سے باجوڑ میں کسی مذہبی شخصیت کو قتل کیے جانے کا یہ اس مہینے کے دوران دوسرا واقعہ ہے۔ قتل کی جانے والی دونوں شخصیات کا تعلق جمیعت علمائے اسلام (جے یو آئی) سے بتایا جا رہا ہے لیکن مقامی ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق دونوں مفتی صاحبان کو ان کی مذہبی و سیاسی جماعت کے ساتھ وابستگی کی بنیاد پر قتل نہیں کیا گیا ہے۔
تھانہ عمرے کے سٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ اور) نیاز محمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ واقعہ دہشت گردی کا ہے لہذا مراسلہ تیار کرکے سوات کبل کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کے دفتر صبح تک بھیج دیا جائے گا۔
ایس ایچ او کے مطابق: ’مفتی بشیر بازار سے سودا سلف لینے گئے تھے۔ شام ساڑھے پانچ بجے کے قریب وہ اپنی موٹر سائیکل پر گھر جا رہے تھے کہ نامعلوم افراد نے انہیں سر پر گولیاں ماریں جس سے وہ موقع پر دم توڑ گئے۔‘
ایس ایچ او نیاز محمد نے بتایا کہ باجوڑ کے حالات تیزی سے خراب ہو رہے ہیں اور علاقے میں بد امنی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔
علاقہ مکینوں اور مقامی صحافیوں کے مطابق باجوڑ میں غیر یقینی کی صورتحال اور درپردہ حالات کی وجہ سے وہ کھل کر واقعات پر بات نہیں کرسکتے، تاہم علاقے کی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے ایک نوجوان نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ معلوم یہ ہورہا ہے کہ اس مرتبہ چھڑنے والی ’وار آن ٹیرر‘ نہایت خطرناک لیکن آخری ثابت ہوگی، جس کے بعد مستقل طور پر امن قائم ہوجائے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’قتل ہونے والی شخصیات عام لوگ نہیں تھے۔ یہ افغانستان جنگ کے جنگجو رہے ہیں یا کسی اہم عہدے پر فائز رہے ہیں، جن کو کبھی داعش تو کبھی امارات اسلامی کے نام پر اس طرح سے قتل کیا جارہا ہے۔‘
مفتی بشیر محمد کون تھے؟
60 سالہ مفتی بشیر محمد ماضی میں جے یو آئی کے ساتھ وابستہ تھے اور 2008 میں وہ باجوڑ میں حلقہ این اے 43 سے جے یو آئی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی نشست کے امیدوار تھے لیکن انہیں کامیابی نہیں مل سکی تھی۔
مفتی بشیر کراچی میں جامعہ رشیدیہ سے فارغ التحصیل تھے اور اسی سوچ کے مالک تھے۔ وہ بطور صحافی لکھتے بھی رہے ہیں اور افغانستان کے مشہور اخبار ’ضرب مومن‘ کے نمائندے بھی رہے تھے۔
ان کے دوسرے بھائی مولانا عزیز احمد اسی اخبار کے مدیر اعلی بھی رہ چکے تھے جو افغانستان میں 2002 میں بمباری میں مارے گئے تھے۔
ان کے تیسرے بھائی مولانا جان محمد تھے جنہیں القاعدہ کے ساتھ تعلقات کے الزام میں باجوڑ میں ان کے گھر سے 2004 میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔
جیل میں ان کی حالت جب بہت خراب ہوئی تو انہیں حیات آباد میڈیکل کمپلیکس منتقل کیا گیا اور وہیں وہ چل بسے۔
مفتی بشیر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے رہنما مولانا فقیر محمد کے سگے چچازاد بھائی تھے اور 2007 سے 2011 تک وہ باجوڑ میں قائم ٹی ٹی پی کی ایک عدالت میں قاضی کے عہدے پر فائز رہے تھے۔
بعد ازاں انہوں نے حکومت پاکستان کے سامنے ہتھیار پھینک دیے اور گاؤں میں پرامن زندگی گزارنے لگے۔
مفتی بشیر محمد کے حوالے سے ان کے علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک نہایت قابل و زیرک انسان تھے اور باجوڑ کے جرگوں میں ایک اہم شخصیت تصور کیے جاتے تھے۔
ان کے حوالے سے ان کے ایک قریبی دوست نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستانی حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان حال ہی میں جاری مذاکرات میں بھی مفتی بشیر کا مرکزی کردار تھا۔
انہوں نے کہا کہ بشیر محمد پچھلے 10 سال سے سیاست میں فعال نہیں تھے اور وہ زیادہ تر باجوڑ کے اندرونی حالات اور مقامی جرگوں وغیرہ میں مصروف رہتے تھے اور بلا خطر آزاد پھرتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ وہ مولانا کے دوست کی حیثیت کے الجھن کا شکار ہیں کہ مفتی بشیر کادشمن کون ہوسکتا ہے۔
واضح رہے کہ اسی ماہ باجوڑ میں مفتی شفیع اللہ نامی ایک شخص کو بھی نامعلوم افراد نے بم دھماکے میں قتل کیا تھا۔ مفتی شفیع اللہ ایک سکول میں استاد تھے اور ان کا تعلق بھی جے یو آئی سے تھا۔
تاہم ان کی موت کے بعد ایک غیر مصدقہ خط منظر عام پر آیا تھا جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ’مفتی شفیع اللہ اور ان سے قبل قاری الیاس جمہوری عقیدہ رکھنے کے الزام میں مارے گئے تھے‘ کیوں کہ قاتلوں کے مطابق جمہوریت ایک کفری نظام ہے اور اس کے ماننے والے مرتد ہیں لہذا ایسے لوگوں کا خون بہانا ان کی شریعت کے مطابق جائز ہے۔