جب کٹر ہندوؤں کے ایک وٹس ایپ گروپ میں ہریانہ کے نوہ علاقے میں مسلم کش فسادات میں حصہ لینے کے لیے ہندوؤں کو جمع ہونے کی ہدایات دی جا رہی تھیں تو اس گروپ کی گفتگو بیک وقت مسلمانوں اور مقامی انتظامیہ یا پولیس کو پہنچ رہی تھی۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
ہریانہ کے نوہ علاقے کا ہر وہ مسلمان سوال کر رہا ہے کہ ان فسادات کو کیوں نہیں روکا گیا جن کے گھروں اور مسجد پر رات کے دوران ہندوتوا تنظیموں کے ’دہشت گردوں‘ نے حملہ کر کے مسجد کے نائب امام اور چند افراد کو موت کے گھاٹ اتارا، جب کہ باقی دلی اور ہریانہ کی گلیوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے؟
فسادات کو نہیں روکا گیا اور نہ بجرنگ دل اور وشوا ہندو پریشد کے مشتعل جلوسوں کو آگے بڑھنے سے روکا گیا۔
یہ وہی خطہ ہے جہاں محض چند مہینے قبل دو مسلمانوں کو کٹر ہندوؤں نے گاڑی میں زندہ جلایا تھا اور قاتل وہی لوگ ہیں جو سوشل میڈیا پر دنگے فساد کرنے کی دھمکی دیتے آ رہے تھے۔
انہوں نے اپنے کارکنوں کو جمع کرنے کی ہدایت دی اور کہہ دیا کہ فسادات کے بعد روایت کے مطابق ان کی ذمہ داری واپس مسلمانوں پر ڈالی جائے گی، انہیں گرفتار کیا جائے گا اور پھر سرکار کے پہلو میں بیٹھ کر وہ مسلم کش نئی حکمت عملی ترتیب دیں گے۔
اس کے کئی گھنٹے بعد ہی کٹر ہندو نوہ پہنچ کر مسلمانوں پر حملہ کرتے ہیں، مسجد کو جلاتے ہیں اور امام سمیت کئی افراد کو ہلاک کرتے ہیں۔
انتظامیہ کہاں تھی اور پولیس نے کیوں نہیں روکا؟ ان سوالوں کے جواب نہیں ملیں گے، بالکل اسی طرح خاموشی ہے جس طرح منی پور میں دو برادریوں کے بیچ خون ریز تصادم پر پائی گئی ہے۔
یہ واقعہ منفرد بھی نہیں ہے، بلکہ انڈیا کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں اس سے زیادہ دہشت اور بر بریت چند ماہ سے جاری ہے جہاں نہ صرف 160 لوگوں کو ہلاک کر کے کوکی قبیلے سے وابستہ عورتوں کو برہنہ کر کے سرعام پھرایا گیا بلکہ گھروں سے بے دخل کر کے 60 ہزار سے زائد افراد کو ہجرت پر مجبور بھی کر دیا گیا ہے۔
منی پور میں میٹی برادری کی اکثریت ہے جو ہندو مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔ فسادات میٹی اور کوکیوں کے درمیاں بھڑک اٹھے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگر منی پور میں مسیحی فرقے سے وابستہ ہزاروں خاندان وحشت اور درندگی کا نشانہ بنے تو دوسری ریاستوں میں دوسری اقلیتیں خصوصاً مسلمان تشدد کی زد میں ہے اور جس پر پارلیمان کا مون سون اجلاس شور و شرابے کا مرکز بنا ہوا ہے، البتہ دہلی سرکار کی خاموشی برقرار ہے۔
بقول کانگریس کے سرکردہ رہنما امیش ترپاٹھی: ’وزیراعظم کے پاس انعام لینے کا ٹائم ہے، انتخابی مہم چلانے کا پروگرام ہے اور غیر ملکی دوروں پر جانے کے لیے طیارہ تیار پڑا رہتا ہے لیکن ملک میں امن و عامہ اور دہشت گردی کی وارداتوں پر بات کرنے کے لیے پارلیمان میں آنے کا وقت نہیں ہے۔
’اس کا مطلب صاف ہے کہ بی جے پی جان بوجھ کر دنگے فسادات کروا کے خوف کی فضا قائم کر رہی ہے تاکہ اگلے انتخابات میں زور زبردستی کی پالیسی اپنا کر ووٹ حاصل کیا جا سکے، اپوزیشن کے اتحاد انڈیا نے بی جے پی کی نیند اڑا دی ہے۔‘
جموں و کشمیر کے سابق گورنر اور بی جے پی کے رہنما ستیہ پال ملک کہتے ہیں کہ ہریانہ کے فسادات اگلے انتخابات کی تیاری ہے اور پلوامہ سے بد ترین حملے کی توقع کی جانی چاہیے جو رام مندر پر حملہ یا بی جے پی کے رہنما کی ہلاکت کی شکل میں بھی ہو سکتا ہے۔
ملک کا مزید کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر حملہ کر کے انتخابات جیتنے کی پالیسی بنا سکتی ہے اور نتائج آنے کے بعد اپنی افواج کو پاکستانی کشمیر سے واپس بلا سکتی ہے۔
بی جے پی کی جانب سے ابھی اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں ہوا ہے۔ تاہم وزیراعظم مودی نے منی پور پر خاموشی توڑتے ہوئے کہا ہے کہ فسادات بھڑکانے والے مجرموں کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔
بی جے پی کے کئی وزرا نے بھی منی پور میں عورتوں کو برہنہ کرنے کی مخالفت کی مگر ساتھ ہی کانگریس کی حکومت والی ریاستوں پر سیدھا نشانہ سادھا جہاں ماضی میں ریپ اور جنسی زیادتیوں کے کچھ واقعات رونما ہوئے ہیں۔
بی جے پی کی سرکردہ رہنما سمرتی ایرانی نے کہا کہ ’راجستھان اور دوسری ریاستوں میں ایسے واقعات پر کانگریس اور دوسری اپوزیشن جماعتوں نے چپ کیوں سادھ رکھی ہے، یا پھر صرف بی جے پی کو صرف نشانہ بنانا مقصود ہے؟‘
جے پور اور مہاراشٹر کے درمیاں چلنے والی ایک ٹرین میں سفر کے دوراں انڈین ریلوے پولیس کے سپاہی چیتن سنگھ نے اپنے دوسرے ہندو ساتھی اور تین مسلمانوں کو یہ کہتے ہوئے سرکاری بندوق سے قتل کر دیا کہ ’اس ملک میں رہنا ہے تو مودی اور یوگی کہنا ہے۔‘
ایک چشم دید گواہ شعیب صندل نے اس واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’اگر ہم اس واقعے کے بارے میں بتاتے تو ہم پر کوئی یقین نہ کرتا مگر جب قتل والی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تو اس واقعے کی مذمت کے بجائے انڈین میڈیا نے فورا قاتل کو دماغی مریض قرار دیتے ہوئے وردی پوش دہشت گرد کا جواز پیش کیا۔
’ لیکن میں اسے ہٹلر کی اس پالیسی سے تعبیر کرتا ہوں جب اس کی فوج نے یہودیوں کو سفر کے دوراں چن چن کر گولیوں سے بھون ڈالا تھا۔ اور جو نازی پالیسی کی شروعات تھی، انڈیا میں بھی ہٹلر کی پالیسی شروع ہو چکی ہے اور مسلمانوں کو اپنے دفاع پر سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔‘
یہ سوال اکثر کیا جاتا ہے کہ کیا اقلیت کش فسادات بھڑکا کر ہندوتوا جماعت کو انتخابات میں فائدہ ہو گا، اگر فائدہ ہو گا تو کیا اس سے ملک مضبوط ہو گا؟
میں نے یہی سوال جنوبی ایشیا کے سیاسی امور کے ماہر نریندر پٹنایک سے پوچھا تو انہوں نے لمبی خاموشی کے بعد کہا کہ ’بی جے پی کو وقتی طور پر فائدہ تو ہو گا۔ خوف اور دہشت میں لوگ بی جے پی کو ووٹ ڈالیں گے لیکن انڈیا کی وحدانیت اور سالمیت کو دور رس نتائج کے لیے تیار رہنا ہو گا۔
’ہندوؤں کو یہ خوف دلایا گیا ہے کہ اقلیتیں آپ کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہی ہیں جبکہ اقلیتوں کو اپنے حقوق سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔ اس پالیسی سے دونوں برادریوں میں شدید تناؤ پیدا کیا گیا ہے جو اب ہلاکتوں، لوٹ مار اور آگ زنی پر منتج ہو رہا ہے۔
’اگر یہ سب ملک کے دشمن پڑوسی کرتے تو ان کے خلاف جنگ ہوتی لیکن آپ اس پارٹی کو کیسے روکیں گے جو حکمران ہے اور یہ سب اس کی ایما پر ہو رہا ہے؟‘
اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد انڈیا نے مسلمانوں یا دوسری برادریوں پر ہونے والے تشدد پر کوئی پالیسی وضع نہیں کی ہے اور نہ کسی نے ان واقعات پر سنجیدہ اظہار خیال کیا ہے۔
انڈیا کے معروف صحافی سمر ہلانکر اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ ’اگر آپ نریندر مودی کے نئے انڈیا میں رہتے ہیں تو آپ کو جوتے فروخت کرنے، احتجاج میں شرکت کرنے یا ہندو لڑکی کے ساتھ چلنے پر یا مذاق کرنے پر گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
’یعنی اگر آپ مسلمان ہیں اور غلط مقام پر غلط وقت پر موجود ہیں، آئین کی کوئی وقعت نہیں ہے، تمہیں جیل میں ڈالنے کے لیے قانون کا بازو کسی بھی جانب موڑا جا سکتا ہے۔‘
اقلیتیں خود کو غیر محفوظ نہ سمجھتی اگر حکمران جماعت نے مسلم کش فسادات کے مجرموں کو سزا دی ہوتی۔
انڈیا کے موجودہ حالات کون سی سمت اختیار کرتے ہیں یہ انڈیا کی ڈیڑھ ارب آبادی پر منحصر ہے کہ وہ ملک کو متحد رکھ کر مضبوط رکھنا چاہتی ہے یا برادریوں میں بانٹ کر غیر مستحکم صورت حال پیدا کرنے کی حمایت کرتی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔