پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پونچھ اور کوٹلی میں لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقوں میں گرمی کی چھٹیاں ختم ہونے کے باوجود تعلیمی ادارے بند ہیں اور حکام کے مطابق اس کی وجہ کنٹرول لائن کے پار سے ان علاقوں پر بھارتی فوج کی گولہ باری ہے۔
پونچھ کی تحصیل ہجیرہ میں مقامی انتظامیہ نے 16 دیہات میں سکولوں کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر رکھا ہے جبکہ عباس پور کے کچھ علاقوں میں بھی تعلیمی ادارے بند ہیں۔
اسسٹنٹ کمشنر ہجیرہ سید ممتاز کاظمی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ’گولہ باری کا کوئی وقت مقرر نہیں، کسی بھی وقت شروع ہو سکتی ہے۔ سکولوں میں بچوں کے لیے حفاظتی انتظامات ناکافی ہیں، اس لیے ان کی جانوں کو خطرے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔‘
ان کے بقول کئی علاقوں میں بھارتی فوج کی چوکیاں آبادی کے سامنے ہیں اور وہاں سے ان کے نشانہ باز شہریوں کو براہ راست نشانہ بناتے ہیں۔ ان حالات میں بچوں کا سکول جانا محفوظ نہیں۔
کوٹلی سے صحافی توقیر خان کے مطابق کشیدہ صورتحال کے باعث ضلعی انتظامیہ نے لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقوں میں سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کو 24 اگست تک بند رکھنے کا حکم جاری کر رکھا ہے۔
جن علاقوں میں گولہ باری ہو رہی ہے وہاں لوگ اپنا زیادہ تر وقت زیر زمین مورچوں میں گزارتے ہیں اور جن لوگوں کے پاس بنکر موجود نہیں، وہ اپنے گھر کی نچلی منزل کو بنکر کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
کوٹلی کے علاقے تتہ پانی میں مقامی نوجوان آصف نے کہا ’اس وقت شدید گولہ باری جاری ہے۔ ہم نے پناہ لینے کے لیے اپنے خرچے پر ایک بنکر تیار کیا ہے جس میں ہم چار، پانچ خاندان رہ رہے ہیں ۔‘
گورنمنٹ ڈگری کالج تتہ پانی کے پرنسپل چوہدری عبدالمجید سے ایک قریبی شاپنگ سینٹر کے زیریں منزل میں ملاقات ہوئی۔ انہوں نے بتایا ’گولہ باری کی وجہ سے ہم یہاں شفٹ ہو گئے ہیں۔ کالج کے ارد گرد بے تحاشہ گولہ باری ہو رہی ہے، بچے کالج آ سکتے ہیں اور نہ سٹاف پہنچ سکتا ہے، بالکل خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چندروز قبل پونچھ کے علاقے درہ شیر خان میں شادی کی تقریب پر بھارتی فوج کی گولہ باری سے دو معمر افراد ہلاک ہوئے جبکہ ایک اور واقعے میں عباس پور میں سات سالہ بچے کو لائن آف کنٹرول کے پار سے گولی کا نشانہ بنایا گیا جو بعد میں راولپنڈی کے فوجی ہسپتال میں دم توڑ گیا۔
فائرنگ سے متاثرہ علاقوں میں نہ صرف تعلیمی ادارے اور کاروبار بند ہیں بلکہ تمام معمولات زندگی بری طرح متاثرہو رہے ہیں۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ خواتین اور بچے متاثرہ ہیں۔
درہ شیر خان کی رہائشی پروین نامی خاتون نے بتایا ’جس وقت گولہ باری شروع ہوئی، ہم ناشتے کی تیاری کر رہے تھے۔ ہم بچوں کو لےکر نچلی منزل میں چلے گئے۔ چائے اور کھانا ادھر ہی پڑا رہا، ہمیں اتنا وقت بھی نہیں ملا کہ بچوں کو ناشتہ کروا سکتے۔ پورا دن بچے بھوکے رہے۔‘
پانچ اگست کو بھارت کی جانب سے اپنے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت میں تبدیلی کے بعد لائن آف کنٹرول پر کشیدگی اور فائرنگ کے تبادلے میں اب تک ہوئی شہریوں ہلاکتوں کی تعداد آٹھ ہو گئی ہے اور چار خواتین سمیت کم از کم 12 افراد زخمی ہیں۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کے ریاستی ادارے ایس ڈی ایم اے کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اگست کے مہینے میں سب سے زیادہ نقصان ضلع پونچھ میں ہوا، جہاں کم از کم چھ افراد ہلاک اور آٹھ زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ کوٹلی اور حویلی کے اضلاع میں بھی ایک، ایک ہلاکت ہوئی۔
اعداد و شمار کے مطابق فائرنگ سے بڑی تعداد میں رہائشی مکانات اور دکانوں کی تباہی کے علاوہ سرکاری اور نجی املاک کو بھی نقصان پہنچا۔