مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے 11 اپریل 2022 کو پاکستان کے 23ویں وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا، جبکہ چند روز قبل نو اگست کو قومی اسمبلی کی تحلیل اور بعدازاں نگران وزیراعظم کی تعینات کے عوامل مکمل ہو چکے ہیں۔
پی ٖی ایم اور اتحادی جماعتوں پر مشتمل حکومت کو معاشی، خارجہ و سیاسی محاذ سمیت کئی دیگر چیلینجز کا سامنا رہا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے خلاف اس وقت کی اپوزیشن نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈیم ایم) کے نام سے متحدہ اپوزیشن کا پلیٹ فارم بنایا، جہاں سے پی ٹی آئی حکومت کی پالیسیز پر کڑی تنقید ہوتا رہا۔
پی ٹی آئی کی معاشی پالیسز اور مہنگائی کے خلاف مریم نواز اور مولانا فضل الرحمان نے علیحدہ علیحدہ لانگ مارچز بھی کیے لیکن حکومت میں آنے کے بعد مہنگائی ہی پی ڈی ایم حکومت کے لیے بڑا چیلینج رہا۔
شہباز شریف نے جب وزیراعظم کا حلف اٹھایا تو اس وقت اداراہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں افراط زر کی شرح 13.4 فیصد تھی اور جب پی ڈی ایم حکومت رخصت ہوئی تو یہ شرح بڑھ کر 28.3 فیصد ہو گئی تھی۔
سینیئر صحافی ندیم ملک نے پی ڈی ایم کی معاشی کارکردگی پر بات کرتے ہوئے کہا: ’پی ڈی ایم حکومت روپے کی قدر کو ڈالر کے مقابلے میں سنبھالنے میں ناکام رہی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ: ’جب یہ حکومت آئی تو ڈالر 189 روپے کا تھا جو آج 290 کے قریب ہے یعنی 100 روپے کا فرق پڑا۔‘
ندیم ملک کا کہنا تھا کہ دیہاتی علاقوں میں مہنگائی کی شرح 50 فیصد تک جا پہنچی ہے۔
ان کے مطابق: ’اگر پوچھا جائے پی ڈی حکومت کو کس چیز میں مکمل ناکامی ہوئی تو وہ مہنگائی کو سنبھالنے میں ہوئی۔‘
سینیئر صحافی محمد مالک کی رائے تھی کہ ’اگر پی ڈی ایم حکومت میں مفتاح اسماعیل بطور وزیر خزانہ کام کرتے رہتے تو معاشی میدان میں ان کی ریٹنگ بہتر ہوتی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اسحاق ڈار کے آنے کے بعد آئی ایم ایف پروگرام تاخیر کا شکار ہوا جس سے مہنگائی بڑھی۔‘
محمد مالک کے مطابق ’معاشی معاملات کا بیڑا غرق انہوں نے خود کیا۔‘
پی ڈیم ایم حکومت میں بلاول بھٹو زرداری بطور وزیر خارجہ کابینہ میں شامل ہوئے۔ بلاول بھٹو زرداری اپنے دوروں کی وجہ سے خبروں میں رہے اور خاص طور پر انڈیا کے دورہ اہم رہا۔
پی ڈیم ایم کی خارجہ امور پر پالسیوں پر ندیم ملک کا کہنا تھا ’متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور قطر سے جو مالی معاونت ملی اس میں فوج کی قیادت کا کردار زیادہ اہم رہا ہے۔‘
ان کے مطابق ’بلاول بھٹو سیلاب کے دوران ایکٹیو رہے اور اچھی باتیں کیں۔‘
سینیئر صحافیوں کے نزدیک پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم حکومت دونوں صحافت کے لیے اچھی نہیں رہیں۔
ندیم ملک کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی حکومت میں مطیع اللہ جان، اسد طور والے واقعات سامنے آئے جبکہ اس حکومت کے دوران ارشد شریف جان سے گئے اور عمران ریاض کا تا حال معلوم نہیں کہ کہاں ہیں۔‘
اسی حوالے محمد مالک کا کہنا تھا کہ ’شاید آئندہ وقت صحافت کے لیے اس سے زیادہ برا ہو۔‘