پاؤں میں چھالوں کے باوجود ہمت نہیں ہاری: پیدل حاجی عثمان ارشد

پاکستانی طالب علم عثمان ارشد نے اپنے سفر کا آغاز یکم اکتوبر 2022 کو اوکاڑہ سے کیا تھا اور وہ 13 اپریل 2023 کو سعودی عرب پہنچے تھے۔

اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے عثمان ارشد نے چھ ماہ 13 دن پیدل طویل سفر طے کر کے حج کی سعادت حاصل کی، یہ کوئی معمولی سفر نہیں تھا بلکہ انتہائی حیران کن سفر تھا اس دوران عثمان ارشد کو بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ 

پاکستانی طالب علم عثمان ارشد نے اپنے سفر کا آغاز یکم اکتوبر 2022 کو اوکاڑہ سے کیا تھا اور 13 اپریل 2023 کو وہ سعودی عرب پہنچے تھے۔ 

عثمان ارشد نے انڈپینڈنٹ اردو کو اپنے انوکھے انداز میں حج کرنے کا احوال بتایا کہ ’یکم اکتوبر2022 کو میں نے اوکاڑہ سے پیدل چلنا شروع کیا اور پاکستان، ایران، متحدہ عرب امارات سے ہوتے ہوئے سعودی عرب پہنچا اس دوران بہت سے کٹھن حالات کا سامنا کیا۔

’چونکہ میرے دل میں جذبہ تھا کہ میں اللہ کا گھر دیکھوں اور اللہ کی محبت میں، میں نے پیدل چل کر حج کرنے کا عزم کیا، جس کے لیے میں نے کہیں سے کوئی تربیت حاصل نہیں کی تھی۔‘

انہوں نے کہا کہ انہیں پیدل چلنا پسند ہے۔

اپنے ملک کی مثبت عکاسی کے لیے عثمان نے 2021 میں اوکاڑہ سے پاکستان چائنا بار ڈر تک پیدل سفر طے کیا تھا۔

’وہیں سے مجھے حوصلہ ملا، سفر حج سے قبل میں نے خود سے مطالعہ کیا کہ پاکستان سے سعودی عرب کے درمیان کون کون سے ممالک آئیں گے ویزہ کس طرح سے حاصل کر سکتا ہوں وغیرہ، اور پھر میں نے ٹھان لی تھی کے پہلا حج میں پیدل چل کر کروں گا۔‘

طویل سفر کے دوران کیا مشکلات پیش آئیں؟ 

عثمان ارشد نے بتایا کہ ’پیدل چلتے چلتے پاؤں میں چھالے پڑ گئے تھے۔ پیروں کو محفوظ رکھنے کے لیے ٹیلکم پاؤڈر کا تو استعمال کیا لیکن سفر اتنا طویل تھا کہ کے پیروں کی حالت خراب ہو رہی تھی لیکن ہمت نہیں ہاری۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہر علاقے کا موسم دوسرے علاقے کے موسم سے مختلف تھا کہیں سخت دھوپ نے نڈھال کیا تو کہیں سخت سردی نے جسم کو منجمد کیا۔‘

ان کے مطابق ’پیدل چلتے چلتے میں ایران پہنچا وہاں اپنا خیمہ لگایا اس وقت ہلکی بارش ہو رہی تھی ساتھ میں سردی کی شدت نے مجھے جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ سردی سے بچنے کے لیے میں نے چھ شرٹس پہنی اور چھ پینٹس پہنیں اور ایک گھٹنوں تک جیکٹ پہنی۔ باوجود اس کے ٹھنڈ کی شدت کا احساس میرے اعصاب پر طاری رہا۔‘

عثمان بتاتے ہیں کہ ’وہ رات اتنی طویل لگنے لگی کہ ایک لمحے کے  لیے لگا کہ جیسے رات نہیں کٹنے والی اس رات مجھ پر گذرنے والی مشکل میں اور میرے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔‘

عثمان نے بتایا کہ چھ ماہ تیرہ دن کے ’سفر کے دوران بہت سے سخت مراحل سے ہوتا ہوا آگے بڑھا لیکن ایک اور پریشانی یہ بھی تھی کہ کئی راستے ایسے بھی آئے جہاں آبادی کا نام و نشان ہی نہیں تھا حد نگاہ تک لمبی سڑک اور سناٹا، ایسے میں کھانے پینے کا بندوبست کرنا امتحان بن جاتا تھا۔ ایران سے میں نے روٹیاں لی ہوئی تھی جو بہت موٹی تھی اس پر چٹنی لگا کر کھائی اور بس چنے اپنے ساتھ رکھ لیے, یہی روٹی اور چٹنی کھا کر وقت گزارا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ ’بہت مشکلات آئیں لیکن جب میں سوچتا تھا کہ مکہ مکرمہ جانا ہے یا مدینہ منورہ دیکھنا ہے تو اس منزل کے سامنے یہ مشکلات کچھ بھی نہیں لگتی تھیں۔‘

’خانہ کعبہ پر پہلی نظر  پڑتے ہی آنسو نہ رکے‘ 

عثمان ارشد نے اپنے احساسات کا خلاصہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’پہلی نظر خانہ کعبہ پر پڑی تو مجھے یقین نہ ہوا کہ میں واقعی اپنی منزل پر پہنچ گیا۔ آنکھوں میں نمی اور دل کی دھڑکن تیز تھی جذبات ایسے کہ ناقابل بیاں، اور خوشی کا عالم تھا۔ بحفاظت میں اپنی منزل پر پہنچا یہ کسی معجزے سے کم نہیں تھا میرے لیے۔‘

عثمان ارشد جب حج کی سعادت حاصل کر کے اپنے شہر اوکاڑہ پہنچے تو سب نے پر تپاک انداز میں استقبال کیا۔

عثمان ارشد  کا کہنا تھا کہ ’میرے شہر کے لوگوں نے پھولوں کے ہار  ڈالے اور ابھی تک  لوگ مجھے مبارک باد دینے کے لیے آ رہے ہیں جس کسی کو میرے گھر کا پتہ معلوم کرنا ہوتا ہے تو وہ پیدل حاجی کے نام سے میرا پوچھتے ہیں اور سیدھا میرے گھر پہنچ جاتے ہیں، اب پیدل حاجی کے نام سے مجھے جانا جاتا ہے۔‘

عثمان ارشد نے کہا کہ حج کی ادائیگی سے زندگی کا سب سے بڑا فریضہ ادا ہو گیا۔

جب عثمان ارشد سعودی عرب پہنچے تو ان کے پاس حج کا ویزا نہیں بلکہ عمرے کا ویزا تھا جس کے بعد پاکستان حج مشن کی کوششوں سے عثمان ارشد کو حج کا ویزا مل گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی