گلگت بلتستان میں بابوسر ٹاپ کے مقام پر 20 اگست کو پنجاب سے تعلق رکھنے والے پروفیسر راشد کے قتل کے واقعے کے بعد دیامر پولیس نے دو مشتبہ مقامی افراد کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ مقتول پروفیسر کا پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد میت آج میلسی روانہ کر دی جائے گی۔
دیامر پولیس کے مطابق مقتول کی عمر 34 سال تھی اور وہ سکردو میں بطور استاد ملازمت کرتے تھے۔
اس قتل کی اہمیت یہ ہے کہ یہ واقعہ سیاحتی سیزن کے دوران پیش آیا ہے جس کی وجہ سے سیاحوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور سوشل میڈیا پر اس پر تبصرے ہو رہے ہیں کہ اس سے سیاحت پر منفی اثر پڑے گا۔
وزیرِ اعلیٰ گلگت بلتستان نے بھی اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے مجرموں کو 48 گھنٹے کے اندر گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔
سیکرٹری داخلہ گلگت بلتستان رانا محمد سلیم افضل نے پیر کے روز موقعے کا دورہ کر کے کہا کہ ’یہ مین روڈ ہے جس کے ذریعے سیزن میں سیاح اس علاقے میں آتے ہیں اور یہاں اگر اس قسم کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اس کے بڑے منفی اثرات ہوتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میرے یہاں آنے کا مقصد یہی ہے کہ وقوعے کی جگہ پر دیکھیں کہ انتظامی طور پر کوئی غفلت تو نہیں ہوئی، اور مجرموں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس وقت تمام سٹیک ہولڈر، جس میں پولیس جی بی سکاؤٹس ضلعی انتظامیہ موقعے پر موجود ہیں۔‘
دیامر کے ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) محمد ایاز کے مطابق ’آج صبح واقعے کی ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے جبکہ مجرموں کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے۔‘
علاوہ ازیں انہوں نے بتایا کہ گرفتار شدہ افراد کا آج ریمانڈ لے کر تفتیش شروع کر دی جائے گی۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے بابوسر کے مقام پر گذشتہ رات پیش آنے والے کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس، انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو 48 گھنٹوں کے اندر مجرمان کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔
ڈی پی او محمد ایاز کے مطابق ’واقعہ پیش آنے کے بعد کنٹرول روم سے اطلاع ملنے پر پولیس فوراً حرکت میں آئی اور جائے وقوع پر پہنچی۔‘
ڈی پی او نے مزید بتایا کہ مقتول کی میت آج گھر پہنچا دی جائے گی۔
متذکرہ واقعے پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’باوجود اس حقیقت کے یہ راستہ متنازع ہے اور شام کے بعد یہاں سے گزرنا، یا پھر گاڑی روکنا کسی بھی حادثے کا سبب بن سکتا ہے، سیاح پھر بھی بے احتیاطی کر جاتے ہیں، اور پولیس کی بات نہیں مانتے۔‘
’چلاس کے زیرو پوائنٹ سے اوپر بابوسر ٹاپ تک کا راستہ سنسان، جنگلی اور پہاڑی علاقہ ہے۔ کئی کلومیٹر تک زگ زیگ سڑک ہے، متعلقہ گاڑی میں سات لوگ سوار تھے جو رات ساڑھے نو بجے کے قریب ’کوٹے موڑ‘ کے پاس ایک ڈھابے پر چائے پینے اتر رہے تھے۔‘
’اس دوران چند نقاب پوش جیسے ہی حملے کی غرض سے آئے، ڈرائیور نے گاڑی ریورس کرکے بھاگنے کی کوشش کی، لیکن ڈاکوؤں نےان پر فائرنگ کر دی جس سے میلسی سے تعلق رکھنے والے پروفیسر جو فرنٹ سیٹ پر بیٹھے تھے، انہیں گردن پر گولی لگی، جبکہ گاڑی کا ٹائر پھٹ گیا۔‘
دیامر پولیس کا کہنا ہے کہ ’متذکرہ راستے پر روزانہ جگہ جگہ پولیس کی تعیناتی ہوتی ہے اور ہر شام دس گاڑیوں کا قافلہ بنا کر پٹرولنگ کرنے بھیج دیا جاتا ہے۔‘
ڈی پی او محمد ایاز کا موقف تھا کہ ’اگرچہ پچھلے دس بارہ سال سے چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں ہو رہی ہیں لیکن سیاح پولیس کی بات نہیں مانتے اور چونکہ یہ شاہراہ کافی اوپر نیچے ہے، گھپ اندھیرا ہوتا ہے، اور موبائل سگنل بھی کام نہیں کرتے، اسی لیے کوتاہی ہو جاتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دیامر تھک کے مقامی صحافی شہاب الدین غوری کے مطابق اس علاقے میں ’قتل کا یہ پہلا واقعہ ہے جبکہ چوری اور ڈکیتی کی کئی وارداتیں ہو چکی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ مکین علاقہ پولیس پر برہم ہیں، کیونکہ آج تک کسی بھی واقعے میں مجرموں کو گرفتار نہیں کیا جا سکا ہے۔
گلگت بلتستان کے ایک رہائشی احمد یعقوب کے مطابق ’رواں ماہ بابو سر کے مقام پر یہ پانچویں ڈکیتی ہے تاہم اب بات آگے بڑھ چکی ہے اور سیاحوں پر سیدھی فائرنگ کرکے انہیں مزاحمت پر قتل کیا جانے لگا ہے۔ زیروپوائینٹ سے لے کر گیتی داس تک آپریشن ہونا چاہیے تاکہ سیاح محفوظ رہ سکیں۔‘
سیکرٹری ٹورازم گلگت بلتستان آصف اللہ خان کے مطابق ’پہلی بات تو یہ کہ سیاح شام پانچ بجے کے بعد اس راستے پر سفر نہ کریں، دونوں جانب قیام کے لیے معیاری ہوٹل ہیں، رات وہاں گزار کر صبح سفر کریں۔ دوسری بات، بابو سر ٹاپ کے دونوں جانب چوکیاں ہیں، سیاح وہاں اپنا اندراج ضرور کروایا کریں۔ یہ ان کے فائدے کے لیے ہے، لیکن اکثر سیاح اندراج کیے بغیر گاڑی دوڑاتے ہیں اور اس پر فخر محسوس کرتے ہیں۔‘