گھر سے جیسے ہی لڑکی یا خاتون کسی بھی کام کی غرض سے باہر نکلتی ہے اسے باہر کی دنیا میں انوکھا ہی سما ں ملتا ہے۔ چاہے وہ دفتری حدود ہوں یا راستہ۔ راستے میں لڑکی کو دیکھ کر آوازے کسنا، کوئی گانا گنگنانا، سیٹی مارنا یا بائیک کی سپیڈ تیز کر کے شوخیاں مارنا صرف نوجوان لڑکوں کا کام نہیں رہا۔ اس کار خیر میں ادھیڑ عمر کے مردوں کے تو کیا ہی کہنے ہیں۔ وہ تو یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ گھر کی عورت کے ساتھ ساتھ دوسری ہر عورت بھی ان کی ملکیت ہے اور اسے جہاں، جیسے دل کریں چھیڑیں یا اس پر بات کریں، کمنٹ کریں جواب میں اس بیچاری عورت نے کیا کہنا ہے۔ اور یہ سچ ہے کہ عورت سب کچھ دیکھ کے، سن کے، سہہ کے بھی کچھ نہیں کر سکتی یہ ہراسمنٹ نہیں ہے تو کیا ہے؟
اب تو ہراسانی کے خلاف قانون بھی موجود ہے اور اس میں سخت سزاؤں کا تعین بھی کیا گیا ہے اس کے باوجود عورت کیوں خاموش رہتی ہے؟ میری دانست میں اس کی بنیادی طور پر دو وجوہات ہو سکتی ہے ان میں سے ایک یہ کہ انہیں شاید معلوم ہی نہیں کہ ہراسمنٹ کیا ہے؟ اور اس کی حد کیا ہے؟ ان کے خیال میں شاید بیچ چوراہے عورت کومارنا یا اس کے سر سے چادر کھنچ کے اتار دینا یا پھر اس کے کپڑے پھاڑ دینا ہی ہراسمنٹ ہے۔
دوسری وجہ یہ کہ عورت کو اس بات کا ادراک ہے کہ اگر لب کشائی کرے گی تو بے گناہ ہو کے بھی گناہگار قرار پائے گی وہ اگر بیچ راستے یا ورک پلیس پر بولے گی تو اسے بعض ایسے ایسے عزت افزا القابات سے نوازا جائے گا کہ وہ سن کر عورت کا سر خود شرم سے جھک جائے گا اور ہماری سوسائٹی تو ایسے چٹ پٹے موقعے کی تلاش میں ہوتی ہے کہ کچھ ہو اور وہ اپنی فلاسفی چھاڑیں۔
اگر انٹی ہراسمنٹ قانون کی بات کی جائے تو اس کی رو سے اگر کوئی شخص کسی مرد یا عورت کو کام کرنے کی جگہ پر زبانی، تحریری یا جسمانی طور پر ہراساں کرے یا تحریر یا عمل کے ذریعے ایسا ماحول پیدا کرنے کی کو شش کرے تو اسے تعزیزات پاکستان کی دفعہ 509 کے تحت سزا یا جرمانہ کیا جانا ہے۔ اور تو اور ہراسانی کی اقسام کو بھی واضح کر دیا گیا ہے جن میں دفتری کام کے لیے اوقات سے زیادہ کام کرنے کے لیے مجبور کرنا، تنخواہ بڑھانے کا لالچ دے کر کوئی جنسی تعلقات کے لیے مجبور کرنا، نوکری سے برطرفی کی دھمکی دے کر تعلقات کے لیے مجبور کرنا، سالانہ کارکردگی کی رپورٹ پر اثرانداز ہونا، جنسی تعلق کی خواہش کا اظہار کرنا، گھورنا، اشارے کرنا، فقرے کسنا، بس اسٹاپ پر کھڑے ہوکر گھورنا، وین یا بس میں اونچی آواز میں میوزک لگانا، بیہودہ الفاظ کا استعمال کرنا، یعنی ہر وہ عمل جس سے کسی مرد و عورت کی عزت نفس مجروح ہو وہ ہراسمنٹ ہے۔
لیکن ہمارے ہاں تو ہر جگہ یہی سب کچھ ہو رہا ہے۔ اب مہنگائی کے اس دور میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کا ملازمت کرنا ایک مجبوری بھی ہے اور خواتین سرکاری ادارے میں ہوں یا پرائیویٹ، وہاں کام کر رہی ہیں۔ یہاں تک کہ اب تو مجبوری میں گھر گھر جا کر اشیائے فروخت بھی لڑکیاں کر رہی ہیں۔ لڑکیاں بس ہوسٹس بھی ہیں اور وہاں مرد کی نگاہ ان کے کام کی بجائے ان کی جسمانی ساخت پر زیادہ ہوتی ہے اور وہ انہیں براہ راست یا بالواسطہ ہراساں کرتے رہتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افسوس ناک امر یہ ہے کہ قانون سازی کے باوجود ہراسانی کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے اگر صرف ملتان شہر کی بات کی جائے تو ریڈیو پاکستان میں کام کرنے والی حجاب فاطمہ کے بعد چند روز قبل ایک سماجی تنظیم پاکستان ہیومن ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن ملتان میں کام کرنے والی لاہور کی رہائشی(س) نے این جی او کے مالک و مسلم لیگ (ن) کے ایم پی اے حاجی عطاء الرحمن کی جانب سے مبینہ ہراسمنٹ کے خلاف آواز اٹھائی۔ متاثرہ لڑکی نے الزام لگایا کہ میں حاجی عطاء الرحمن کی یونیورسٹی (این سی بی اے ای) میں ایم ایس سی ایس فرسٹ سمسٹر کی طالبہ ہوں اور ان کی یونیورسٹی میں ایک سال سے کام کر رہی تھی۔ اس دوران مجھے گیارہ ماہ مذکورہ شحض کی جانب سے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا رہا اور میری ویڈیوز بنائی گئیں اور ہراساں کیا جاتا رہا۔
اس واقعہ کی ایف آئی آر بھی درج ہوئی اور اس معاملے کو ختم کرنے کے لیے آٹھ کروڑ کی پیشکش بھی متاثرہ لڑکی کو کیے جانے کی باتیں بھی سننے میں آئیں۔ اس میں کتنی صداقت ہے اس کا فیصلہ تو انکوائری کے بعد سامنے آئے گا تاہم ذرائع کے مطابق ڈی سی ملتان نے کاروائی کرتے ہوئے پاکستان ہیومن ڈویلمپنٹ کا دفتر عارضی طور پر سیل کر دیا گیا ہے۔
اس سے پہلے بہاالدین زکریا یونیورسٹی سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کے چئیرمین اجمل مہار کے خلاف مرجان نامی لڑکی نے آواز اٹھائی تھی۔ اس میں کتنا سچ اور کتنا جھوٹ تھا اس پہ بحث کے بغیر اس کا نقصان یہ ہوا کہ بہاالدین زکریا یونیورسٹی میں سرائیکی ڈیپارٹمنٹ ہی بند کر دیا گیا اور اب تو ہراسمنٹ کے اس طرح کے کیسز ہر دوسرے روز سامنے آرہے ہیں۔
اب اگر ہراساں کرنے والا یہ عذر پیش کرے کہ میری یہ نیت نہیں تھی ایسا تھا، ویسا تھا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیوں کہ ہر وہ عمل جس سے دوسرے کو دکھ پہنچے، ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے، شرمندگی کا احساس ہو، وہ ہراسمنٹ ہے۔ ہراسمنٹ کا شکار صرف عورت نہیں مرد بھی ہو سکتا ہے لیکن ہم اور ہمارا معاشرہ اس بات کو سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔ اور تو اور آپ کو کسی بھی کام کی وجہ سے اپنا فون نمبر شیئر کرنا پڑ جائے تو وہ ایک الگ عذاب یعنی فون نمبر دے کر آپ نے اسے صبح شام دن رات تنگ کرنے کا جیسے لائسنس ہی دے دیا ہو۔
یہ ہراسمنٹ نہیں تو کیا ہے؟ بات پھر وہیں پہ آ کے ختم ہو جاتی ہے کہ مرد ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں چھپی تکلیف کو تکلیف ہی نہیں سمجھتے۔ ہراسمنٹ کے بعض ایسے واقعات جو سنگین قسم کے تھے وہ رپورٹ ہوئے اور ان پر قانون حرکت میں بھی آیا۔ کچھ خواتین کو انصاف بھی ملا جب کہ زیادہ تعداد تو خواتین کی ایسی ہے جو اپنے ساتھ ہونے والی ہراسمنٹ کے خلاف بول کے بھی پچھتا رہی ہیں کیوں کہ نہ انہیں انصاف ملا اور اپنے خاندان، محلے، برادری، سوسائٹی کی جانب سے جو باتیں سننی پڑی ہیں اس کے بعد تو شاید وہ اپنے آنے والی سات نسلوں کو یہ سبق دے جائیں کہ اپنے اوپر ہونے والے ہر ظلم کو سہہ لینا لیکن بولنے کی غلطی نہ کرنا کیوں کہ ایک چپ سو سکھ۔
دوسرا اس قانون کے تحت تمام نجی و سرکاری اداروں، کالجز، یونیورسٹیوں میں کمیٹیاں بنائی جانی تھیں اور ضلع کی سطح پر ہر محکمہ میں تین افراد پر مشتمل کمیٹی بنانا تھی جن میں ایک ملازمین کا نمائندہ، ایک سینئر مینجمنٹ کا نمائندہ اور ایک خاتون نمائندہ کا ہونا لازمی ہے۔ تاہم ماسوائے چند اداروں کے کہیں کمیٹیوں کا نام ونشاں نہیں۔
ہراسمنٹ اور ہراسمنٹ کے قانون کے حوالے سے بات کرنے کے لیے جب سنئیر قانون دان اور سماجی کارکن زہرہ سجاد زیدی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہراسمنٹ کا قانون صرف خواتین کو نہیں بلکہ مردوں کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ کام کرنے کی جگہ پر عورتوں کو ہراساں کرنے کے قانون کے مطابق اگر کوئی شخص کسی مرد یا عورت کو کام کرنے کی جگہ پر زبانی، تحریری یا جسمانی طور پر ہراساں کرے یا الفاظ، تحریر یا عمل کے ذریعے ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرے تو اس کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 905 کے تحت سزا اور جرمانہ کیا جائے گا۔ تاہم شعور و آگہی نہ ہونے کی وجہ سے اس قانون کو صرف عورتوں سے جوڑ دیا گیا ہے اور مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ بعض ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جب لڑکیوں کی جانب سے مرد وں کو ہراساں کیا گیا اور لڑکیوں کے والدین خود اس میں ملوث ہوتے اور بھاری بھرکم رقوم وصول کرتے ہیں۔
اس لیے ہراسمنٹ کے قانون کے منفی استعمال کو روکنے کے لیے شکایت درج کروانے کے لیے لفظ پرسن استعمال کیا گیا ہے اور مرد و عورت کے لیے سزا بھی ایک ہے میرا مطالبہ یہی ہے کہ ہراسمنٹ کے واقعات کی روک تھام کے لیے میرٹ پر انکوائری کی جائے اور جرم ثابت ہونے پر سخت سزائیں دی جائیں چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔
کوآرڈنیٹر ساؤتھ پنجاب پاکستان تحریک انصاف ڈاکٹر روبینہ اختر نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ راہ چلتے، دفاتر میں، ہسپتالوں میں، بس اسٹینڈ پر، دروان سفر خواتین کو کسی نہ کسی طریقے سے ہراساں کیا جا رہا ہوتا ہے لیکن ہم اسے روٹین کا کام سمجھ کے اگنور کر رہے ہوتے ہیں جو کہ غلط بات ہے کیوں کہ ہراسمنٹ صرف جنسی زیادتی نہیں ہے ہر وہ عمل ہے جس سے کسی بھی انسان کی عزت نفس مجروح ہو اور اپنی عزت و وقار کے لیے ہر ایک کو بولنے کا حق حاصل ہے چاہے وہ مرد ہو یا عورت اور انہیں انصاف اور تحفظ فراہم کرنا ریاست کا کام ہے۔