صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بٹگرام میں سات بچوں کو ریسکیو کرنے والے شہری الیاس اور علی سواتی کا کہنا ہے کہ ’دراصل یہ ایک ٹیم ورک تھا اور 80 فیصد کریڈٹ فوج کو ہی جاتا ہے۔‘
علی سواتی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ علی الصبح پھنس جانے والے بچوں کو بچانے کے لیے سب سے پہلے پاشتو کے مقامی لوگوں نے ہرممکن کوشش کی تھی، لیکن ناکامی کی صورت میں بٹگرام کی سیاسی و غیر سیاسی قیادت کے ساتھ رابطہ کیا گیا۔
’آرمی کے چار ہیلی کاپٹر بروقت پہنچ گئے تھے، جنہوں نے ایک بچے کو ریسکیو کر لیا، لیکن وقت کم تھا، اندھیرا چھانے کو تھا اورموسم کی خرابی بھی بیچ میں آگئی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ ایک ٹیم ورک تھا اور اس میں مقامی لوگوں سمیت سیاسی وغیر سیاسی قیادت، انتظامیہ اور فوج سب نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔
’ڈپٹی کمشنر مانسہرہ بلال شاہد راؤ نے تجویز دی تھی کہ علی سواتی اور ان کی ٹیم کے پاس زپ لائن کے اوزار ہیں، وہ اس میں مدد کرسکتے ہیں۔ آرمی نے فوراً مجھ سے رابطہ کرکے ہمیں ہیلی کے ذریعے بٹگرام پاشتو پہنچایا۔‘
علی سواتی نے بتایا کہ چیئر لفٹ کی جو رسی سلامت تھی، اس کو انہوں نے اور ان کی کمپنی کے سپروائزر الیاس نے ریسکیو کے لیے زپ لائن بنایا۔
’بچے انتہائی ڈرے ہوئے تھے، پہلے 10 منٹ ان کو دلاسہ دے کر پر سکون کیا۔ ان کو گر جانے کا خوف تھا۔ ہم سے پہلے آرمی نے ان کو پانی، خوراک اور دوا پہنچائی تھی۔ میں اور الیاس بیک وقت تین تین بندوں کو اپنے ساتھ لے جاسکتے تھے۔ اس طرح چار گھنٹوں میں سات بچوں کو ہم نے ریسکیو کیا۔ تاہم یہ سمجھنا ہوگا کہ اگرچہ یہ ایک ٹیم ورک تھا لیکن 80 فیصد کریڈٹ آرمی کو جاتا ہے۔‘
31 برس کے علی سواتی جن کا تعلق ضلع مانسہرہ سے ہے وہ بالاکوٹ نوری ویلی میں رواں سال پاکستان کی بلند ترین اور جدید زپ لائن کا افتتاح کرچکے ہیں۔ وہ ہیونز وے زپ لائن کے سربراہ (سی ای او) بھی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مانسہرہ سے بی کام اور بزنس کی تعلیم حاصل کی ہے اور کم عمری میں ہی بزنس کی جانب راغب ہو گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ الیاس ان کی کمپنی میں سپروائزر ہیں جو تکنیکی کاموں کے ماہر ہیں۔
’ہمیں جب بھی کوئی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ہم اپنی ٹیم کے ماہر ترین بندوں کو بلاتے ہیں۔ الیاس کا تعلق بھی مانسہرہ سے ہے اور ہمارا پرانا ساتھی ہے۔‘
علی نے بتایا کہ بچوں کو ریسکیو کرنا ان کے لیے بھی اتنا آسان نہیں تھا اور اس دوران انہیں کافی مشکلات پیش آئیں تاہم اس دوران وہ آرمی کی نگرانی میں رہے۔
’ہم نے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر یہ کام کیا کیوں کہ ڈر یہ تھا کہ کسی بھی وقت دوسری رسی بھی ٹوٹ سکتی تھی۔ جب باحفاظت سب نیچے اترے تو وہاں موجود عوام نے بتایا کہ ہمیں چار گھنٹے لگے اس کام میں۔‘
الیاس اور علی کا کہنا ہے کہ آج انہیں پاکستان بھر کی میڈیا کی جانب سے رابطہ کیا جا رہا ہے اور ضلعی انتظامیہ سمیت، حکومتی اداروں وغیرہ کی جانب سے رابطہ کیا گیا ہے اور وہ دن بھر مختلف شخصیات کے ساتھ ملاقاتوں میں مصروف رہیں گے۔