بٹگرام میں چیئر لفٹ میں پھنسے سات بچوں اور ایک استاد کو 13 گھنٹے طویل ریسکیو آپریشن کے بعد بحفاظت بچا لیا گیا ہے۔
الائی کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نذیر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایک مہینہ پہلے چیئر لفٹ کو پولیس کی جانب سے نوٹس بھی جاری کیا گیا تھا کہ وہ این او سی جمع کروایں۔
بٹگرام پولیس نے واقعے کو چیئرلفٹ مالک اور آپریٹر کی ’غفلت‘ اور ’لاپرواہی‘ قرار دیتے ہوئے دونوں افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔
نذیر خان نے ریسکیو آپریشن کے بارے میں بتایا کہ اس میں مقامی افراد کی جو بات ہو رہی ہے، یہ عام لوگ نہیں تھے بلکہ ’زیپ لائن‘ اور ’کوکا‘ نامی نجی کمپینوں کے لوگ تھے جن کو بذریعہ ہیلی یہاں لایا گیا تھا۔
نذیر خان نے بتایا، ’ان کمپنیوں کا کام چیئر لفٹس لگانا اور اس طرح کی ریسکیو مہمات کرنا ہے اور بعض مواقع پر وہ اس کے پیسے بھی لیتے ہے کیونکہ یہی ان کا کام ہے۔’
چیئر لفٹ کی بحالی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ چیئر لفٹ دو گاؤں کے مابین آمدورفت کا واحد ذریعہ ہے تو ضلعی انتظامیہ تمام تر حفاظتی تدابیر اختیار کر کے اور اس کو این او سی جاری کرنے کے بعد بحال کرے گی۔
کیا بچے سکول آئے؟
اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پہاڑ کے اوپر دو گاؤں کو ملانے کا ایک پیدل راستہ موجود ہے لیکن اس پر تقریبا دو گھنٹے لگتے ہے اور اسی وجہ سے اس چیئر لفٹ کو مقامی افراد بحالی کے منتظر رہیں گے۔
پاکستانی فوج نے آپریشن مکمل ہونے کے بعد ایک بیان میں بتایا کہ چیئر لفٹ کی ایک تار ٹوٹنے کے بعد بچے اور استاد ایک کھلی کیبل کار میں 600 فٹ کی بلندی پر ایک کھائی کے اوپر آدھے راستے میں پھنس گئے تھے۔
یہ عارضی کیبل کار قریب ترین روڈ لنک سے چار گھنٹے کی مسافت پر ایک ویران جگہ پر تھی۔ پاکستانی فوج کے ایک بیان کے مطابق: ’پاکستان آرمی ایوی ایشن کے پانچ ہیلی کاپٹروں اور پاک فضائیہ کے دو ہیلی کاپٹروں نے ایس ایس جی کمانڈرز اور آرمی کے دستوں کے ساتھ ریسکیو آپریشن میں حصہ لیا۔‘
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ایک بیان کے مطابق: ’انتہائی مشکل ریسکیو مشن کو علاقے میں تیز ہواؤں اور اس طرح کے آپریشن میں شامل خطرات بشمول، ہیلی کاپٹر کے روٹر بلیڈز نے لفٹ کو غیر مستحکم کرنے سے مزید دشوار بنا دیا۔‘
آپریشن کا آنکھوں دیکھا حال
باٹونگی گاؤں کے رہائشی رحیم خان صبح سے لے کر ریسکیو آپریشن کے اختتام تک چیئر لفٹ کے مقام پر موجود تھے اور انہوں نے یہ پورا آپریشن اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صبح جب لوگوں کو پتہ چل گیا کہ لفٹ کی ایک رسی ٹوٹنے سے لوگ پھنس گئے ہیں تو مقامی افراد جمع ہونا شروع ہو گئے اور لوگوں کا رش لگ گیا۔
تقریباً صبح 11 بجے مقامی انتظامیہ کے لوگ اور ریسکیو 1122 کے اہلکار بھی چیئر لفٹ کے مقام پر پہنچ گئے۔
پشاور سے چیئر لفٹ کے مقام پر پہنچنے میں ہماری ٹیم کو تقریباً 11 گھنٹے لگ گئے۔
یہ چیئر لفٹ ضلع الائی (اس کو جنوری 2023 میں نئے ضلعے کا درجہ دیا گیا ہے لیکن ابھی تک اس کی انتظامی امور ضلع بٹگرام کے پاس ہے) کے دور افتادہ علاقے باٹونگی میں واقع ہے۔
پشاور سے جاتے ہوئے الائی کے مین بازار بنان پہنچنے کے بعد آگے چیئر لفٹ تک پہنچنے کا واحد حل فور بائی فور گاڑی تھی جس پر بازار سے چیئر لفٹ کے مقام تک تقریبا دو گھنٹے کا راستہ تھا۔
رحیم خان نے بتایا کہ دوپہر کو ضلعی انتظامیہ کی درخواست پر ہیلی کاپٹر بھیجا گیا جس نے معائنہ کیا اور کچھ دیر کے بعد واپس چلا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’کچھ لمحے بعد ہیلی کاپٹر نے اڑان بھری اور ریسکیو کرنے کی کوشش کی تو پریشر کی وجہ سے ڈولی ہلنے لگی اور اس کا توازن خراب ہونے لگا ہیلی کی مدد سے ڈولی کی بیئرنگ چیک کی گئی۔‘
رحیم خان نے بتایا کہ اگر یہ کہا جائے کہ ’آرمی کے ہیلی کاپٹر میں سوار اہلکار ڈولی کی رسی اور بیئرنگ چیک نہ کرتے تو زمینی آپریشن مکمل ہونا ممکن نہیں تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ جب ڈولی کی رسی اور بیئرنگ کو چیک کر کے اطمینان کر لیا گیا کہ یہ رسی ٹوٹنے والی نہیں ہے تو اہلکار نے ڈولی میں بیٹھے ایک طالب علم کو جیکٹ دے دی۔
رحیم خان کے مطابق: ’تقریبا آدھے گھنٹے تک اہلکار طالب علم کو جیکٹ پہنانا سکھا رہے تھے تاکہ جیکٹ کو رسی سے باندھ کر طالب علم کو ریسکیو کیا جا سکے۔ یہ وہی طالب علم تھے جن کی طبیعت خراب ہوئی تھی۔ آخر کار طالب علم نے جیکٹ پہن لیا اور رسی کی مدد سے طالب علم کو کھینچا گیا اور یوں پہلا پھنسا ہوا طالب علم ریسکیو کیا گیا۔‘
اس کے بعد رحیم کے مطابق دوسرے پھر تیسرے طالب علم کو ہیلی کاپٹر کی مدد سے لفٹ میں بیٹھے افراد کو جیکٹ پہنائی گئی۔
اندھیرا چھانے کے بعد جب ہیلی کاپٹر کے ذریعے ریسکیو کرنا ممکن نہیں رہا تو مقامی افراد جو دوپہر سے زمینی ریسکیو کی درخواست کر رہے تھے ان کو اجازت دے دی گئی۔
ایک اور عینی شاہد حبیب اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مقامی افراد کو ریسکیو کی اجازت تب ملی جب بچوں کے خاندان والوں سے باقاعدہ اجازت نامے پر دستخط کرالیے گئے اور پھر ہی مقامی ڈولی اور ریسکیو کے ماہرین نے ریسکیو میں حصہ لیا۔‘
موقع پر موجود ایک غیر سرکاری تنظیم کے رضاکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پہلے تو حکومت کی جانب سے مقامی افراد کو ریسکیو کی اجازت اس لیے نہیں دی جا رہی تھی کیوں کہ حکومت کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتی تھی۔‘
لیکن بعد میں اس رضاکار کے مطابق جب اندھیرے کی وجہ سے ہیلی کے ذریعے ریسکیو آپریشن ممکن نہیں رہا تو مقامی ریسکیو ماہرین سمیت ریسکیو 1122 اور پاکستان آرمی کے جوانوں نے آپریشن میں حصہ لیا۔
مقامی ریسکیو ماہرین کے حوالے سے اسی رضاکار نے بتایا کہ ’یہ عام لوگ نہیں تھے بلکہ ان کا کام ہی روایتی طریقوں سے اسی طرح کے ریسکیو آپریشن کرنا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ان افراد میں بعض ماہرین ضلع بشام سے آئے تھے جبکہ کچھ اس میں مقامی افراد بھی شامل تھے۔ یہ لوگ اسی طرح کے علاقوں میں گاڑی کو پانی کی بیچ سے نکالنے، کسی گہری کھائی میں گرنے کے بعد ریسکیو کرنے اور اس کو اٹھاتے ہیں۔‘
رضا کار نے مزید بتایا کہ یہ تو حادثہ تھا اس لیے ان ریسکیو ماہرین نے اس کا کوئی معاوضہ نہیں لیا لیکن گاڑی گرنے، یا پانی سے نکالنے کے یہ باقاعدہ پیسے لیتے ہیں اور ان کے پاس ریسکیو کے مختلف آلات بھی موجود ہوتے ہیں۔
گذشتہ شب پاکستان کے نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے اعلان کیا تھا کہ بٹگرام میں چیئر لفٹ میں پھنسے تمام افراد کو بچا لیا گیا ہے اور ریسکیو آپریشن کامیابی سے مکمل کر لیا گیا ہے۔
سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ’اللہ کا شکر ہے کہ بٹگرام میں ریسکیو کا عمل کامیابی سے مکمل کر لیا گیا ہے۔‘
صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع الائی میں پاشتو کے مقام پر منگل کی صبح تار ٹوٹنے سے چیئر لفٹ میں چھ بچوں سمیت آٹھ افراد پھنس گئے تھے۔
پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے بھی تمام بچوں کو کامیابی سے باحفاظت ریکسیو کیے جانے پر اطمنان کا اظہار کیا تھا۔
انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں لکھا کہ ’فوج، ریسکیو ڈپارٹمنٹس، ضلعی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ مقامی افراد نے بہترین ٹیم ورک کا مظاہرہ کیا۔‘