’ہم تقریباً سات بج کر 15 منٹ پر ڈولی میں بیٹھے اور کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد رسی ٹوٹ گئی۔ رات کو یہاں موبائل سگنلز چلے جاتے اور صبح واپس آتے ہیں۔ تقریبا ساڑھے آٹھ بجے تک موبائل سگنلز کا انتطار کر رہے تھے تاکہ کسی کو انفارم کیا جا سکے۔‘
یہ کہنا تھا بٹگرام کے علاقے الائی کے گاؤں بٹنگی سے تعلق رکھنے والے مقامی دکاندار گل فراز کا، جو سکول بچوں کے ساتھ چیئر لفٹ میں پھنس گئے تھے اور کل رات کو تمام پھنسے بچوں اور گل فراز کو باحفاظت ریسکیو کیا گیا تھا۔
گل فراز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صبح ڈولی میں بیٹھے تو رسی ٹوٹ گئی اور ہم ہوا میں معلق ہو گئے جبکہ موبائل سگنلز نہ ہونے کی وجہ سے ایک گھنٹے تک کسی کو اطلاع نہ دے سکے۔
گل فراز نے بتایا، :ہمارے علاقے میں موبائل سگنلز کی لوڈشیڈنگ بھی کی جاتی ہے۔ رات کو سگنلز جانے کے بعد صبح آٹھ نو بجے آتے ہیں اور ہم سگنلز کی واپسی کے اتنظار میں ہی بیٹھے تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ چیئر لفٹ میں ان کے ساتھ سکول کے سات بچے بھی موجود تھے، جو نہایت ڈرے ہوئے اور خوف زدہ تھے۔ ’لیکن میں بچوں کو تسلی دیتا رہا اور تقریباً ساڑھے 8 بجے مقامی افراد کو حادثے کی اطلاع دی۔‘
اس کے بعد گل فراز کے مطابق تقریباً گیارہ بارہ بجے ہیلی پہنچے لیکن امدادی کارکن انہیں ریسکیو کرنے سے ڈر رہے تھے۔ ’کیونکہ ڈولی (چیئر لفٹ) کا صرف ایک کنڈا رہ گیا تھا اور یہی ڈر تھی کہ کہیں یہ بھی ٹوٹ نہ جائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گل فراز کے مطابق جب ڈولی کی رسی ٹوٹی تو وہ جھولے کی طرح لٹک گئے اور سارا وقت جھولتے رہے۔
اس کے بعد گل فراز کے مطابق دوپہر کے بعد جب ہیلی آپریشن کرنے میں ناکام رہی کیونکہ ڈر تھا کہ ہیلی کاپٹر کی ہوا کے دباؤ رسی ٹوٹ سکتی تھی اور اسی لیے زمینی ریسکیو آپریشن کیا گیا۔
گل فراز کے مطابق یہ بات واضح ہے کہ چیئر لفٹ ان کے گاؤں آنے جانے کا واحد طریقہ ہے کیونکہ وہاں دوسرے ذرائع آمدورفت موجود نہیں ہیں۔
انہوں نے ضلعی انتظامیہ اور صوبائی حکومت سے ان کے علاقے میں سکول، سڑک اور پل بنوائی جائیں تاکہ چئر لفٹ میں یہاں رہنے والوں کا چھٹکارہ حاصل ہو سکے۔