’وہ میری صحافتی زندگی کا سخت اور کٹھن وقت تھا جب میں ایک فائرنگ کے واقعے کی خبر فائل کرنے کے لیے اپنے بیورو چیف کو بار بار فون کرتا رہا لیکن مجھے نہیں پتہ تھا کہ وہ خود اسی فائرنگ کا نشانہ بن چکے ہیں۔‘
یہ کہنا تھا سکھر کے صحافی انس گھانگرو کا، جنہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں 13 اگست کی رات قتل ہونے والے سندھی اخبار ’کاوش‘ اور نیوز چینل ’کے ٹی این‘ سکھر کے بیورو چیف جان محمد مہر کے قتل کے واقعے کی تفصیلات بتائیں۔
انس نے بتایا کہ اس رات سوا نو بجے جب وہ دفتر سے واپس گھر جا رہے تھے تو محمد بن قاسم پارک (لوکس پارک) کے قریب فائرنگ کی آواز سننے پر پتہ چلا کہ مسلح افراد نے ایک کار سوار پر حملہ کیا ہے اور دو کاروں میں تصادم ہوا ہے۔
’ایسے میں، میں نے جان محمد مہر کو واقعے کی اطلاع کے لیے فون کیا تاکہ وہ خبر بریک کر سکیں۔‘
کال نہ اٹھانے پر انس نے مہر کو وٹس ایپ پر پیغام بھی بھیجا۔ انس کے مطابق اس قسم کے واقعات کے بعد مقامی صحافی ایک دوسرے کو مطلع کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے طور پر خبر کی مزید تفصیلات لے سکیں۔
’جب فائرنگ رکی تو میں نے موقعے پر جا کر فوٹیج بنانا چاہی تو اس وقت میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی جب دیکھا کہ جس فائرنگ کی اطلاع، میں جان محمد مہر کو دینا چاہتا تھا وہ خود ہی اس فائرنگ کا شکار ہوئے ہیں۔
’میں نے ان کی مختصر ویڈیوز بنا کر پریس کلب اور دوسرے وٹس ایپ گروپس میں بھیجیں اور جان محمد کو مقامی ہسپتال لے گیا مگر وہ جانبر نہ ہو سکے۔‘
اس واقعے نے انس کو ذہنی طور پر بہت متاثر کیا ہے۔ مقامی پولیس کے مطابق واقعے کا مقدمہ مقتول کے بھائی کرم اللہ مہر کی مدعیت میں قتل اور دہشت گردی کی مختلف دفعات کے تحت چھ نامزد ملزمان سمیت تین نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے۔
مقامی پولیس نے بتایا کہ اب تک واقعے میں تین مبینہ سہولت کاروں کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ مرکزی ملزمان کی گرفتاری تاحال عمل میں نہیں آسکی۔
صحافیوں کے احتجاج کے بعد واقعے کے تحقیقات کے لیے دو مختلف اعلیٰ سطح کی ٹیمیں بھی تشکیل دی گئی ہیں۔
آئی جی سندھ نے ڈی آئی جی تنویر عالم اوڈھو کی قیادت میں ایک جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی ہے، جس میں ایس ایس پی سکھر، ایس پی خیرپور، ایس پی سی ٹی ڈی اور ڈی ایس پی گمبٹ شامل ہیں۔
دوسری جے آئی ٹی محکمہ داخلہ نے ایس ایس پی سکھر کی قیادت میں تشکیل دی، جس میں پولیس اور دیگر ایجنسیوں کے افسران شامل ہیں۔
ڈی آئی جی تنویر عالم کے مطابق ابتدائی طور پر لگتا ہے کہ واقعہ زمینی تنازعے کے باعث پیش آیا، تاہم کیس کا ہر پہلو سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔
’ہماری اولین کوشش ہو گی کہ ملزمان کو قرار واقعی سزا مل سکے۔ تین سہولت کاروں کو گرفتار کرکے انسداد دہشت گردی کی عدالت سے ریمانڈ لیا جاچکا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ آ چکی ہے اور جیوفینسگ، فرانزک اور کیمیکل ایگزامین کی رپورٹس جلد موصول ہو جائیں گی، جس کے بعد گرفتار ملزمان کے بیانات کی روشنی میں کیس کی مزید بہتر انداز میں تحقیقات ہوسکیں گی۔
جان محمد مہر کے بھائی کرم اللہ مہر کا کہنا ہے کہ ملزمان انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے ہوئے کیس سے دستبردار ہونے کا کہہ رہے ہیں۔
انہوں نے مرکزی ملزمان کے گرفتار نہ ہونے پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے خدشات جے آئی ٹی کے سربراہ سے ملاقات میں ظاہر کر دیے ہیں، جس پر جلد اور موثر کارروائی کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے مرکزی فنانس سیکریٹری لالہ اسد پٹھان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ وہ پہلے دن سے واقعے کے اصل محرکات کو سامنے لانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر اس معاملے میں برادری نظام اور روایتی حربوں سے ورثا کو پریشان کیا گیا تو صحافی اس کیس کے مدعی بننے کو تیار ہیں۔
سکھر پریس کلب کے صدر ارشاد گوندل نے مقتول صحافی کے حوالے سے بتایا کہ وہ بہت نفیس انسان تھے اور دوستوں کی تنقید پر بھی مسکرا دیا کرتے تھے۔
’ہم ملزمان کی گرفتاری اور کیس کے اصل محرکات سامنے آنے تک احتجاج جاری رکھیں گے۔‘
سندھ کی صحافتی تنظیموں نے اعلان کیا ہے کہ اگر مہر کے قاتل گرفتار نہ ہوئے تو وہ 26 اگست کو کراچی میں گورنر ہاؤس کے باہر دھرنا دیں گے۔