خیبر پختونخوا کے ضلع بٹگرام میں 22 اگست (منگل) کو چیئر لفٹ حادثے میں بچ جانے والے 16 سالہ نوجوان عطا اللہ شاہ نے بدھ کو اپنا وہ خوفناک تجربہ یاد کرتے ہوئے کہا کہ انہیں لگا جیسے ان کی زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ’مجھے لگا یہ زمین پر میرا آخری دن ہے۔‘
منگل کو پاکستانی امدادی کارکنوں نے سات بچوں اور ایک شخص کو کھائی کے اوپر پھنس جانے والی ایک کیبل کار سے 15 گھنٹوں بعد بحفاظت ریسکیو کیا گیا تھا۔
ضلع بٹگرام کے دور افتادہ اور پہاڑی علاقے الائی میں بچوں کو سکول لے جانے والی کیبل کار صبح سویرے رسی ٹوت جانے کے باعث پھنس گئی اور غیر یقینی طور پر تقریباً سارا دن ہوا میں معلق رہی۔ رات کی تاریکی میں ڈولی میں پھنسے افراد کو نکالنے کا ہائی رسک آپریشن مکمل کیا گیا۔
عطا اللہ شاہ نے کہا کہ ریسکیو ٹیموں کے انہیں بچانے کے لیے پہنچنے تک وہ تمام امیدیں کھو چکے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگرچہ عطال اللہ شاہ زندہ بچ جانے پر شکر گزار ہیں تاہم وہ دوبارہ چیئر لفٹ سے سفر نہیں کرنا چاہتے۔
ان کی خواہش ہے کہ حکومت ان کے گاؤں کے قریب ندی پر پل تعمیر کر دے جس کے ذریعے وہ دوسرے کنارے گاؤں میں واقع سکول جا سکیں گے۔
دسویں جماعت کے طالب علم کا کہنا تھا: ’ہم بہت پریشان تھے۔ کیبل کار بہت جھک گئی تھی اور ڈولی میں ہم سب کے لیے جگہ ناکافی تھی۔ چار لوگ بیٹھے، چار کھڑے تھے اور جو کھڑے تھے ان کے پاس کھڑے رہنے کے لیے بھی کافی جگہ نہیں تھی۔
’پھر ہیلی کاپٹر آیا اور ہمیں بچانے کی پوری کوشش کی گئی۔ فوج (ہیلی کاپٹر) آئی، پولیس آئی، لیکن وہ سب ناکام رہے۔ اس کے بعد ریسکیو کرنے والے لوگ آئے اور ہمیں بچایا۔ اللہ نے ہمیں ایک نئی زندگی دی ہے۔‘