انڈیا: یونیورسٹی ہاسٹل میں مرنے والے نوجوان سے بدسلوکی کا انکشاف

پولیس کی تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ موت سے پہلے 17 سالہ نوجوان نے ساتھی طلبہ کے ستائے جانے سے بچنے کے لیے ہاسٹل کے کئی کمروں میں پناہ لینے کی کوشش کی اور انہیں بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

17 سالہ نوجوان کی لاش یونیورسٹی کے بوائز ہاسٹل کے قریب سے ملی (دیباسش بھادری/ دی ہندو)

رواں ماہ انڈیا کی ایک معروف یونیورسٹی سے ایک طالب علم کی برہنہ لاش ملنے کے حوالے سے پولیس کی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ موت سے پہلے 17 سالہ نوجوان نے ساتھی طلبہ کے ستائے جانے سے بچنے کے لیے ہاسٹل کے کئی کمروں میں پناہ لینے کی کوشش کی تھی اور انہیں بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

طالب علم، جن کا نام قانونی وجوہات کی بنا پر ظاہر نہیں کیا گیا، مغربی بنگال میں اپنے گھر سے 123 کلومیٹر دور ریاستی دارالحکومت کولکتہ آئے تھے تاکہ وہ جاداوپور یونیورسٹی (جے یو) میں تعلیم حاصل کرسکیں۔

اس معروف سرکاری یونیورسٹی میں بنگالی زبان کے انڈرگریجویٹ کورس میں داخلہ لینا طالب علم کے خاندان کے لیے بڑے فخر کی بات تھی لیکن صرف تین دن بعد ہی ان کی لاش یونیورسٹی کے بوائز ہاسٹل کے قریب سے ملی۔

اب ریاستی تفتیش کار نوجوان کی موت کا باعث بننے والے واقعات کو یکجا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جیسا کہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ انہیں ’ریگنگ‘ کا نشانہ بنایا گیا تھا اور یہ کہ ان کی موت سے چند منٹ قبل ان پر جنسی طور پر حملہ کیا گیا تھا۔

ریگنگ یا ہیزنگ وہ اصطلاحات ہیں جو انڈیا میں سینیئر طلبہ کی جانب سے فرسٹ ایئر کے طالب علموں کو ستانے کے عمل کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ یہ عمل پورے سال تک چل سکتا ہے جس میں معمولی ٹاسک انجام دینے سے لے کر جسمانی طور پر نشانہ بنانے جیسے عوامل شامل ہوتے ہیں۔ اس عمل کو ملک میں کافی عرصے سے غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود بھی یہ وسیع پیمانے پر تعلیمی اداروں میں رائج ہے۔

مقامی میڈیا رپورٹس نے پولیس کی تحقیقات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ نو اگست کی رات کے دو گھنٹے طالب علم کے لیے طویل آزمائش تھے۔ انہیں برہنہ ہو کر پریڈ کرنے کو کہا گیا۔ وہ بدسلوکی سے بچنے کے لیے رات پونے 12 بجے اپنی موت سے پہلے ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک بھاگے۔

پولیس نے اس معاملے میں اب تک 13 افراد کو گرفتار کیا ہے جن میں موجودہ اور سابق طلبہ بھی شامل ہیں۔ وہ ان کے خلاف بچوں کے خلاف جنسی جرائم سے متعلق سخت قانون لاگو کرنے پر غور کر رہے ہیں۔

تفتیش کاروں کے مطابق گرفتار کیے گئے 13 طلبہ میں سے صرف ایک نے اس واقعے میں کوئی فعال کردار ادا نہیں کیا تھا۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق نوجوان کو برہنہ کرکے گالم گلوچ اور ہم جنس پرستی پر مبنی بدسلوکی سے نشانہ بنایا گیا۔

پولیس نے یونیورسٹی کے مرکزی ہاسٹل میں نو اگست کی رات کو ہونے والے واقعات کی تفصیلات حاصل کی ہیں، جو بالآخر طالب علم کی موت کا باعث بنے۔

پولیس کے حوالے سے بتایا گیا کہ نوجوان کمرہ نمبر 68 میں رہائش پذیر تھے، جنہیں ایک سینیئر طالب علم نے ہاسٹل کے کمرہ نمبر 70 میں بلایا اور وہاں انہیں برہنہ کر دیا گیا۔ متاثرہ طالب علم نے ہراسانی سے بچنے کی کوشش کی اور خود کو کمرہ نمبر 65 میں بند کر لیا لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے۔

موت سے قبل ان کا ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک پیچھا کیا گیا، اس دوران سینیئرز نے مبینہ طور پر ان کے لیے توہین آمیز جملے کہے۔

تفتیش کی نگرانی کرنے والے ایک سینیئر پولیس افسر نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ ’ہاسٹل کے کچھ رہائشیوں نے کہا ہے کہ 17 سالہ نوجوان نے انہیں بتایا کہ وہ ہم جنس پرست نہیں ہے۔ ہم ان کے اس بیان کی تفتیش کر رہے ہیں۔‘

ایک اور افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو بتایا: ’نوجوان کو یقینی طور پر ریگنگ اور جنسی حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ کمرہ نمبر 70 میں زبردستی کپڑے اتارنے کے بعد ہاسٹل کی راہداری میں انہیں برہنہ پریڈ کروائی گئی۔ ہمارے پاس اس حوالے سے ثبوت موجود ہیں۔ 12 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جنہوں نے پورے واقعے میں کچھ نہ کچھ کردار ادا کیا ہے۔‘

متاثرہ طالب علم بالآخر آدھی رات کو دوسری منزل کی بالکونی سے نیچے گر گیا۔

تفتیش کار ابھی تک اس بات کا تعین نہیں کر سکے کہ آیا یہ حادثہ تھا، خودکشی کی کوشش یا انہیں جان بوجھ کر دھکا دیا گیا۔

نوجوان کو شدید زخمی حالت میں ایک نجی ہسپتال لے جایا گیا، جہاں وہ تقریباً پانچ گھنٹے بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے انکشاف ہوا کہ ان کی ریڑھ کی ہڈی میں فریکچر کے ساتھ ساتھ ان کے سر، پسلی اور کمر کے بائیں جانب بھی چوٹیں آئی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

متاثرہ طالب علم کے والد نے انڈین ایکسپریس کو بتایا: ’میں چاہتا ہوں کہ جو لوگ میرے بیٹے کی موت کے ذمہ دار ہیں، انہیں سزا کا سامنا کرنا پڑے۔ اسے قتل کر دیا گیا۔ وہ ہمیں بتاتا رہا کہ وہ ٹھیک نہیں ہے اور خوفزدہ ہے۔ مجھے اسی دن اسے گھر واپس لانا چاہیے تھا۔‘

ان کے بقول: ’ہاسٹل کے سینیئر طلبہ میرے بیٹے کی موت کے ذمہ دار ہیں۔ وہ ڈر گئے ہوں گے کہ اگر وہ گھر واپس آیا تو وہ ہمیں ریگنگ کی ساری کہانی سنائے گا۔ میرے بیٹے کا جاداوپور یونیورسٹی جانا ایک خواب جیسا تھا۔ جب سے اس نے وہاں نشست حاصل کی تھی ہم سب کو فخر سے بتا رہے تھے۔ ہمیں کم ہی معلوم تھا کہ بڑی یونیورسٹیوں میں ایسا (ریگنگ جیسا عمل) ہوتا ہے۔ میرے بہت سے دوست اور میرے سماجی حلقے کے دیگر افراد کا تعلق جے یو سے ہے، اس لیے مجھے یقین تھا کہ وہ وہاں ٹھیک ہو گا۔ میرا بیٹا بہت مہذب لڑکا تھا۔ وہ ہر استاد کا پسندیدہ شاگرد تھا۔‘

اس واقعے نے قومی سطح پر نئی بحث چھیڑ دی ہے اور اب مختلف ادارے اس کی علیحدہ علیحدہ تحقیقات کر رہے ہیں، جن میں مغربی بنگال ہیومن رائٹس کمیشن (ڈبلیو بی ایچ آر سی)، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن، نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن، ریاست کے بچوں کے حقوق کا ادارہ، ایک ریاستی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی اور یونیورسٹی کی دو داخلی کمیٹیاں شامل ہیں۔

ڈبلیو بی ایچ آر سی کی رپورٹ میں پہلی بار اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ نوجوان کی موت ریگنگ کے نتیجے میں ہوئی تھی۔

یونیورسٹی انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ اس بدسلوکی کے بارے میں پہلے سے آگاہ نہیں تھی جب کہ انہوں نے اس معاملے پر مزید تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

اس واقعے کے بعد سے یونیورسٹی میں قیادت کی تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ ریاست کے گورنر سی وی آنند بوس نے پیر کو یونیورسٹی میں ریاضی کے پروفیسر بدھادیب سو کو عبوری وائس چانسلر مقرر کیا۔

’دی کوئنٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی میں متعدد اینٹی ریگنگ اقدامات کا بھی اعلان کیا گیا ہے جن میں ہاسٹل کے دروازوں پر سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب، نئے طلبہ کو سینیئرز سے الگ کرنا اور ہاسٹل کے سکیورٹی عملے میں اضافہ کرنا شامل ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس