گرمی کے موسم میں طرح طرح کی مشروبات کا چلن پاکستان اور انڈیا میں بہت عام ہے۔ جس میں کچھ مشروبات کا تعلق مغلیہ عہد کے مشروبات سے ہے۔ جیسے گلاب کے پھولوں کا شربت، پھلوں کے امتزاج سے تیار مشروبات وغیرہ۔
سلمیٰ حسین جنہوں نے مغلیہ عہد کے طعام و مشروبات پر نصف صدی تک تحقیق کی، وہ بتاتی ہیں کہ ’زیادہ تر مشروبات کی ایجاد شاہی حکیموں کی مہربانی ہے، جنہوں نے کبھی بغرض دوا اور کبھی فرحت بخش ذائقہ کے لیے مشروبات تیار کیے اور وہ بہت پسند کیے گئے۔‘
سلمیٰ کے مطابق ’مغل عہد میں جس طرح کھانے کے ذائقہ نے اوج کمال کو چھوا اسی طرح نوع نوع کے شربت ایجاد ہوئے۔ ان شربتوں کے بنانے میں سب سے زیادہ پیش پیش شاہی حکیم اور وید ہوتے تھے۔‘
انہوں نے ایک واقعہ بتایا کہ ’ایک بار ملکہ نور جہاں باغ میں ٹہل رہی تھیں۔ گلاب کے پھول لگے ہوئے تھے۔ نور جہاں کی ماں عصمت آرا بیگم ان پھولوں سے عطر وغیرہ بنایا کرتی تھیں۔
’نور جہاں نے شاہی حکیم کو بلایا اور کہا کہ آپ پھولوں سے اتنی دوائیں بناتے ہیں، ان گلاب کے پھولوں سے آپ شربت کیوں نہیں بناتے۔ دوا کے نام پر بہت سارے لوگ تو پیتے ہیں، مگر آپ ایسی چیز بنائیں جو ہمیں گرمی سے نجات دلائے اور فرحت بخش ہو اور پینے میں ہمیں مزہ بھی آئے۔
’حکیموں نے کوشش کی اور اس طرح ہندوستان میں گلاب کی شربت کا چلن شروع ہوا۔‘
سلمیٰ بتاتی ہیں کہ ’نورجہاں تخلیقی صلاحیت کی مالک تھیں۔ ان کی سرکردگی میں بہت اچھے اچھے شربت بننے لگے۔ کھانے بھی اچھے بنتے تھے، ذائقہ دار۔ وہ خاص طور پر شاہی مطبخ کی نگرانی کرتی تھیں۔ ان کی سرکردگی میں پھولوں سے شربت بنتے تھے۔ پھلوں کے رس سے شربت بننے لگے۔‘
انہوں نے بتایا: ’جڑوں سے شربت بننے لگے، جیسے شربت خس۔ آم سے پننا بننے لگا۔ اسی طرح بیل کا شربت بنانے لگے۔ لور انار کا شربت کھٹا انار اور پکا ہوا انار، دونوں کو پکا کر بنایا جاتا تھا، کہا جاتا تھا کہ یہ جلد کے لیے بہت مفید تھا۔
’اس زمانے میں ملکائیں خوبصورتی کی دیوانی تھی، تو ان کے لیے یہ شربت بنایا جاتا تھا، جسے حکیم بنا کر دیتے تھے۔‘
سلمیٰ مزید بتاتی ہیں کہ ’ہندوستان میں گرمی بے انتہا ہوتی تھی۔ جیسے آج کل کی گرمی ہے۔ اس زمانے میں لو چلتی تھی۔ بادشاہ مشروبات کو ٹھنڈا بھی کرتے تھے۔ جیسے اکبر بادشاہ نے پہاڑوں سے برف منگوانی شروع کی۔ پہاڑوں سے برف آتی تھی جسے میں یہ مشروبات ٹھنڈے کیے جاتے تھے۔‘
ان کے مطابق: ’پھولوں کے شربت میں گلاب کا شربت بنا، موتیا کا شربت بنا۔ پھلوں میں جامن کا شربت بنا، بیل کا شربت بنا آم کا شربت بنا۔ اس زمانے میں دہی کا استعمال بہت ہوتا تھا۔ انہیں سے ہم نے رائتہ بنانا سیکھا۔ دہی جو تھی اس کو ٹھنڈا کر کے یا پانی میں ڈال کر گھول کر مشروب بناتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’نیمبو کو توڑ کر اس میں کالا نمک یا ہلکا سا نمک ڈال کر بناتے تھے، اسے شکنجی کہتے تھے۔ ایران میں یہ بہت مشہور تھا۔ ترکی سے ایک شربت آیا آرین، آج کل ہم جو چھاچھ پیتے ہیں وہی تھا۔ بادام سے بہت شربت بنتا تھا، کہتے ہیں کہ ایران میں گرم پانی میں بادام ڈال دیے جاتے تھے اور اسے پیتے تھے۔‘
سلمیٰ کے مطابق ’مشروبات کے تعلق سے کچھ بے سند کہانیاں بھی ہیں، مگر سب مناسب معلوم ہوتی ہیں جیسے حکیموں میں سب سے پہلا حکیم جس نے شربت بنایا، اس کا نام تھا فیثا غورس۔
’حکیم فیثا غورس نے پہلی مرتبہ طبی مشروب کو شربت کی شکل دی۔ جیسے کاڑھا وغیرہ، جسے شربت کی شکل دی۔ وقت گزرنے کے ساتھ آہستہ آہستہ شربت کی تجارت شروع ہوگئی اور ہر طرح کے شربت بننے لگ گئے۔ 1906 میں حکیم مجید نے شربت روح افزا بنایا۔ وہی روح افزا جو آج بھی زندہ ہے اور آج بھی ہم گرمی کو دور کرنے کے لیے اسے پیتے ہیں۔‘
سلمیٰ بتاتی ہیں کہ ’شربت میں جو پانی ملایا جاتا تھا وہ گنگا کا پانی تھا، حالانکہ دہلی میں جمنا ندی بہتی ہے، جسے شاہی پانی میں استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔ کہاجاتا ہے کہ جمنا کے پانی میں بیماری ہوتی تھی۔ مغل اپنے کھانوں میں گنگا اور برساتی پانی کا استعمال کرتے تھے۔
’مغلوں کے آبدار خانے آتے تھے، ان میں آفیسرز ہوتے تھے جن کی ڈیوٹی ہوتی تھی کہ وہ گنگا کا پانی ذخیرہ کریں اور وہ گنگا کا پانی ذخیرہ کرتے تھے اور بادشاہ کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔
سلمیٰ کے بقول: ’کہا جاتا ہے کہ جہانگیر جب جنگ پر جاتا تھا تو آبدار خانہ کا کارکن سونے کی ٹرے کے اندر کوزہ لے کر جنگ کے دوران دستیاب رہتا تھا کہ اس کو یہ پانی دیا جاسکے۔‘