انڈیا: مسلمان طالب علم کو تھپڑ مارنے کی ویڈیو، ٹیچر کے خلاف مقدمہ

انڈیا میں خاتون سکول ٹیچر کو ایک مسلمان طالب علم کو دیگر طالب علموں سے تھپڑ لگوانے پر شدید تنقید کا نشانہ بنانے کے ساتھ ان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

انڈیا میں خاتون سکول ٹیچر کو ایک مسلمان طالب علم کو دیگر طالب علموں سے تھپڑ لگوانے پر شدید تنقید کا نشانہ بنانے کے ساتھ ان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جبکہ انڈین میڈیا کے مطابق پولیس نے خاتون ٹیچر کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کر لی ہے۔

24 اگست کو انڈین ریاست اترپردیش کے ایک نجی سکول میں پیش آنے والے اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ اس ویڈیو میں تریپتا تیاگی نامی خاتون ٹیچر کلاس روم میں طالب علموں سے ایک مسلمان طالب علم کو تھپٹر مارنے کو کہتی ہیں۔ خاتون کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے: ’زور سے مارو۔‘

ویڈیو وائرل ہونے کے بعد خاتون ٹیچر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ایکس (سابق ٹوئٹر) پر ’تریپتا تیاگی کو گرفتار کرو‘ (#ArrestTriptaTyagi) کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرنے لگا۔

انڈین ویب سائٹ ’این ڈی ٹی وی‘ کے مطابق مظفر نگر کے ضلعی مجسٹریٹ اروند بنگاری نے خاتون ٹیچر کے خلاف ایف آئی آر درج کیے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’والدین ابتدائی طور پر شکایت درج کروانے پر راضی نہیں تھے لیکن آج صبح انہوں نے مقامی پولیس سٹیشن میں شکایت کی اور اسے درج کرلیا گیا ہے اور اب کیس میں قانونی کارروائی کی جائے گی۔‘

انہوں نے بتایا کہ بچے اور اس کے والدین کی چائلڈ ویلفیئر کمیٹی نے کونسلنگ کی ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پولیس سپرنٹنڈنٹ ستیہ نارائن پرجاپت نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں کہا کہ فوٹیج کی تصدیق ہو چکی ہے اور ’ٹیچر کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جائے گی۔‘

یہ ایک معمولی سا مسئلہ تھا، جسے بڑھا دیا گیا: خاتون ٹیچر

انڈین میڈیا سے بات کرتے ہوئے خاتون ٹیچر نے موقف اختیار کیا کہ ’ویڈیو سے چھیڑ خانی کی گئی ہے، بچے کے والدین کی طرف سے اس کے ساتھ سختی کرنے کا دباؤ تھا۔ میں معذور ہوں، اس لیے میں نے کچھ طلبہ کو تھپڑ مارنے کا کہا تاکہ وہ اپنا ہوم ورک کرنا شروع کردے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ ایک معمولی سا مسئلہ تھا جو ویڈیو کلپ کے وائرل ہونے کے بعد بڑا بنا دیا گیا۔ اس طرح کے روزمرہ کے مسائل کو وائرل کیا جائے گا تو اساتذہ کیسے پڑھائیں گے؟‘

دوسری جانب این ڈی ٹی وی کے مطابق بچے کے والد نے کہا کہ ’میرا بیٹا 7 سال کا ہے۔ یہ واقعہ 24 اگست کو پیش آیا۔ ٹیچر نے طالب علموں سے میرے بچے کو بار بار مروایا، میرے بیٹے کو ایک یا دو گھنٹے تک تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ بہت خوفزدہ ہے۔‘

اس سے قبل بچے کے والد کا کہنا تھا کہ وہ سکول کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گے لیکن اب اپنے بچے کو مزید اس سکول میں نہیں بھیجیں گے۔

ویڈیو کے وائرل ہوتے ہی انڈین سیاست دانوں نے بھی اس کے خلاف آواز اٹھائی۔

کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے اس پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا: ’معصوم بچوں کے ذہنوں میں تعصب کا زہر بونا، سکول جیسے مقدس مقام کو نفرت کی منڈی میں تبدیل کرنا، ایک استاد ملک کے لیے اس سے برا کچھ نہیں کر سکتا۔‘

انہوں نے انڈیا کی موجودہ حکومت کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا: ’یہ وہی مٹی کا تیل ہے جو بی جے پی نے پھیلایا ہے، جس نے انڈیا کے کونے کونے میں آگ لگا دی ہے۔ بچے انڈیا کا مستقبل ہیں، ان سے نفرت نہ کریں، ہم سب کو مل کر پیار سکھانا ہے۔‘

سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے بھی ٹیچر کو فوری طور پر برطرف کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اسے معاشرے پر ایک دھبہ قرار دیا جبکہ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ورن گاندھی نے لکھا کہ ’ علم کے مندر میں ایک بچے سے نفرت نے پوری قوم کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔‘

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے اسد الدین اویسی نے ایکس پر ایک طویل پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’مظفر نگر کی ویڈیو جس میں ایک ٹیچر اپنے طالب علموں کو ایک مسلمان بچے کو تھپڑ مارنے کے لیے کہہ رہی ہے، پچھلے نو سالوں کی پیداوار ہے۔ چھوٹے بچوں کے ذہنوں میں یہ پیغام ڈالا جا رہا ہے کہ کوئی بھی کسی مسلمان کو بغیر کسی وجہ کے مار پیٹ اور ذلیل کر سکتا ہے۔‘

انہوں نے بچے کے والد کے بارے میں بتاتے ہوئے لکھا کہ انہوں نے اپنے بچے کو سکول سے ہٹا لیا ہے جبکہ تحریری طور پر لکھ کر دیا ہے کہ وہ اس معاملے کو آگے نہیں بڑھانا چاہتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ انہیں انصاف نہیں ملے گا بلکہ اس سے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔

سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ انڈیا کے دیگر سوشل میڈیا صارفین بھی اس واقعے کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔

منیش آر جے نامی صارف نے ایک تصویر شئیر کرتے ہوئے کیپشن میں لکھا کہ ’تمام نفرت پھیلانے والوں کو سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے، جو نوجوان ذہنوں میں زہر گھول رہے ہیں۔‘

سیاما نے لکھا کہ ’وہ تمام والدین جن کے بچوں کو التمش کو تھپڑ مارنے کے لیے کہا گیا تھا، انہیں یکساں طور پر پریشان ہونا چاہیے۔ آپ، یقیناً، نہیں چاہتے ہوں گے کہ آپ کے بچے راکشس بنیں۔‘

جبکہ کپل نامی صارف نے حال ہی میں وائرل ہونے والی دو تصاویر کا موازنہ بھی کیا، جن میں سے ایک تصویر چندریان 3 سے منسلک خواتین اور دوسری ان خاتون ٹیچر کی تھی۔

 

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا