چاند سے سورج تک: انڈیا کا اگلا خلائی مشن روانہ

آدتیہ ایل ون نامی خلائی جہاز سورج کی بیرونی تہوں کا مشاہدہ کرنے کے لیے سائنسی آلات لے کر گیا ہے۔

انڈیا کی خلائی ایجنسی چاند پر بغیر پائلٹ کے کامیاب لینڈنگ کرنے کے ایک ہفتے بعد ہفتے کو سورج کا مطالعہ کرنے کے لیے خلائی جہاز بھیج کر ایک بڑی کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق آدتیہ ایل ون نامی خلائی جہاز سورج کی بیرونی تہوں کا مشاہدہ کرنے کے لیے سائنسی آلات لے کر گیا ہے۔

امریکہ اور یورپی خلائی ایجنسی (ای ایس اے) نے نظام شمسی کے مرکز پر تحقیقی کے لیے کئی مشن روانہ کر چکے ہیں۔ اس کام کام آغاز 1960 کی دہائی میں خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا کے اولین پروگرام سے ہوا تھا۔

اس خلائی مشن کی کامیابی کی صورت میں انڈین سپیس ریسرچ آرگنائزیشن (آئی ایس آر او) کا تازہ ترین مشن کسی بھی ایشیائی ملک کا پہلا مشن ہوگا جو شمسی مدار میں بھیجا گیا ہے۔

این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے ماہر فلکیات سومک رائے چوہدری نے کہا کہ ’یہ انڈیا کے لیے ایک چیلنجنگ مشن ہے۔‘

رائے چوہدری کا کہنا تھا کہ تحقیقی مشن کورونل ماس ایجیکشن کا مطالعہ کرے گا۔ یہ وقتاً فوقتاً والا ایسا عمل ہے جس میں سورج کی فضا سے پلازما اور مقناطیسی توانائی کا بہت زیادہ اخراج ہوتا ہے۔

یہ طوفان اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ وہ زمین تک پہنچ سکتے ہیں اور ممکنہ طور پر مصنوعی سیاروں کے کام میں خلل ڈال سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آدتیہ اس عمل کی پیشگوئی کرنے میں مدد کرے گا اور ’ہر کسی کو خبردار کرے گا تاکہ مصنوعی سیارے اپنا بجلی کا نظام بند کرسکیں۔

’اس سے ہمیں یہ سمجھنے میں بھی مدد ملے گی کہ یہ فطری مظاہر کیسے واقع ہوتے ہیں اور مستقبل میں ہمیں انتباہ کے نظام کی ضرورت نہیں ہوگی۔‘

ہندومت میں سورج دیوتا کے نام پر تیار کیا گیا خلائی جہاز آدتیہ اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے 15 لاکھ کلومیٹر (930000 میل) کا سفر طے کرے گا۔

آدتیہ آئی ایس آر او کے ڈیزائن کردہ 320 ٹن وزنی پی ایس ایل وی ایکس ایل راکٹ کی مدد سے سفر کر رہا ہے۔ یہ راکٹ انڈین خلائی پروگرام کا بنیادی حصہ رہا ہے جس کے تحت اس سے قبل چاند اور مریخ پر مشن بھیجے گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈین مشن کا مقصد سورج کی بالائی فضا میں موجود ذرات کی تصویر کشی اور پیمائش کے ذریعے کئی دیگر شمسی مظاہر کی حرکیات پر بھی روشنی ڈالنا ہے۔

انڈیا طاقتور خلائی ممالک کی طرح اسی طرح کے خلائی سنگ میل عبور کر رہا ہے لیکن ان کامیابیوں پر اس کے اخراجات بہت کم ہیں۔

جنوبی ایشیائی ملک کا خلائی پروگرام نسبتا کم بجٹ کا ہے لیکن 2008 میں چاند کے گرد چکر لگانے کے لیے پہلی بار خلائی جہاز بھیجنے کے بعد سے اس کے حجم اور رفتار میں کافی اضافہ ہوا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا موجودہ ٹیکنالوجی کی نقل اور اسے اپنی ضرورت کے مطابق شکل دے کر اخراجات کو کم رکھ سکتا ہے اور اس کی وجہ انتہائی ہنر مند انجینیئرز کی زیادہ تعداد ہے جن کی آمدن غیر ملکی انجینیئروں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

گذشتہ ماہ چاند کی سطح پر کامیاب لینڈنگ پر ساڑھے سات کروڑ ڈالر سے بھی کم لاگت آئی۔ اس سے قبل یہ کامیابی صرف روس، امریکہ اور چین نے حاصل کر رکھی ہے۔

خلائی جہاز کے چاند پر اترتے وقت عوامی سطح پر بڑے پیمانے پر جشن منایا گیا اور مشن کی کامیابی کے لیے دعائیہ رسومات ادا کی گئیں۔

کلاس رومز میں براہ راست نشریات کے ذریعے دکھائی جانے والی آخری لینڈنگ کے بعد سکول کے بچوں نے بھی اس مشن کی کامیابی کے لیے دعا کی۔

انڈیا اگلے سال تک زمین کے مدار میں عملے پر مشتمل تین روزہ مشن لانچ کرنے والا ہے۔

وہ جاپان کے ساتھ مل کر 2025 تک چاند پر ایک اور تحقیقی مشن بھیجنے اور اگلے دو سال میں سیارہ زہرہ کے مدار میں مشن بھیجنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی