گلگت کے ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) امیر اعظم حمزہ نے کہا ہے کہ جمعے کو ایک مذہبی رہنما کی ’اشتعال انگیز‘ تقریر کے بعد پیدا ہونے والی کشیدہ صورت حال کے بعد حکومت نے ایک مسلک کے علما سے مذاکرات کیے، جس کے بعد آج بروز اتوار ہونے والا احتجاج روک دیا گیا اور حالات پر امن ہیں۔
یکم ستمبر (بروز جمعہ) کو گلگت بلتستان میں ایک مذہبی رہنما کی جانب سے ’اشتعال انگیز‘ تقریر کے بعد سنی اور شیعہ گروہوں کے درمیان حالات کشیدہ ہوگئے تھے، جس کے بعد حکومت نے ایک خصوصی اجلاس منعقد کیا تھا۔
وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس کے بعد جاری کیے گئے نوٹیفکیشن کے مطابق محکمہ داخلہ نے غیر قانونی اجتماعات اور سڑکیں بند کرنے پر فوری طور پر دفعہ 144 کا اطلاق کر دیا تھا اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں سے سختی سے نمٹنے کا اعلان کیا تھا۔
اسی طرح حکومتی رٹ قائم رکھنے اور عوام کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے فوج طلب کرنے اور خطے کے بڑے شہروں میں رینجرز، جی بی سکاؤٹس اور ایف سی تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
دوسری جانب ایک مسلک کی جانب سے تین ستمبر کو احتجاج کا بھی اعلان کیا گیا تھا، تاہم ڈپٹی کمشنر گلگت امیر اعظم حمزہ کے مطابق: ’انتظامیہ اور حکومت نے گذشتہ رات (2 ستمبر) کو ایک مسلک کے علما کے ساتھ میٹنگ کرکے آج ہونے والے احتجاج کو روک دیا اور یہ وعدہ لیا گیا کہ کوئی احتجاج نہیں ہوگا۔‘
انہوں نے کہا کہ مذاکرات کا نتیجہ ہے کہ لوگ تعاون کے لیے تیار ہوئے جبکہ معاملے کا حل نکالنے کی ذمہ داری حکومت کے سپرد کر دی۔
ڈی سی گلگت نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’حالات واقعات کے حوالے سے افواہیں پھیلانے والے مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے غلط خبریں دے رہے ہیں۔‘
ڈپٹی کمشنر گلگت نے یہ بھی تصحیح کی کہ فوج کو بلایا نہیں جا رہا بلکہ فوج سات ستمبر کو امام حسین کے چہلم کے لیے سٹینڈ بائے پر ہے تاکہ بوقت ضرورت وہ فوری طور پر پہنچ سکیں۔
بقول امیر حمزہ: ’دفعہ 144 بھی اسی لیے نافذ ہے کہ سات ستمبر کو امام حسین کا چہلم ہے۔ فوج کو سٹینڈ بائے پر رہنے کی تاکید کو فوج کو بلانے کے معنی میں استعمال کیا گیا، حالانکہ یہ ہر سال چہلم امام حسین پر ہمارا طریقہ رہا ہے۔‘
ضلعی انتظامیہ کے مطابق حالات کے پیش نظر عوام کے تحفظ کے لیے پولیس، رینجرز اور سکاؤٹس کی تعیناتی کی گئی ہے تاکہ کسی غیر متوقع صورت حال کو بروقت قابو کر سکیں۔
دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے بھی گلگت کے حالات کو پرامن قرار دیا ہے۔
ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ ’گلگت بلتستان میں امن و استحکام ہے۔ سکول، کالج، بازار اور سڑکیں کھلی ہیں، جو معمول کے احساس کو ظاہر کر رہی ہیں۔ پرامن احتجاج بعض اوقات بعض مذہبی اور فرقہ وارانہ خدشات کے رد عمل میں ہوتا ہے لیکن امن و امان کی صورت حال پرسکون ہے۔‘
Amidst misleading social media narratives and fake news, let's set the record straight.
— Murtaza Solangi (@murtazasolangi) September 3, 2023
Gilgit-Baltistan is experiencing peace and stability. Schools, colleges, markets, and roads are open, displaying a sense of normalcy. Peaceful protests do occur at times in reaction to some…
انہوں نے مزید کہا کہ ’فوج کی کوئی تعیناتی نہیں ہوئی ہے اور پاکستانی فوج آنے والے ہفتے میں امام حسین کے چہلم جیسی تقریبات کے دوران کمیونٹی کے تحفظ کے لیے تیار ہے۔‘
دوسری جانب پولیس گلگت، دیامر، سکردو اور دیگر علاقوں میں ان افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے انہیں گرفتار کر رہی ہے، جو غلط افواہیں پھیلانے سمیت نفرت کی فضا پیدا کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈپٹی کمشنر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حالات ہفتے ڈیڑھ ہفتے کے اندر مکمل طور پر بحال ہوجائیں گے۔
گلگت بلتستان کے وزیر داخلہ شمس الحق لون نے بھی تازہ ترین حالات کو ’پرامن‘ قرار دیتے ہوئے ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں انہوں نے امام حسین کے چہلم کے لیے خصوصی انتظام کا بھی ذکر کیا ہے۔
دوسری جانب امریکہ اور برطانیہ نے موجودہ حالات کو اپنے شہریوں کے لیے غیر موزوں قرار دیتے ہوئے اپنے شہریوں کو ان علاقوں کا رخ کرنے سے اجتناب برتنے کی تنبیہ کی ہے۔
گلگت بلتستان میں حالیہ واقعات کے تناظر میں موبائل نیٹ ورک کو بھی جزوی اور عارضی طور پر بند کیا گیا ہے۔
موجودہ حالات کے پیش نظر مرکزی شاہراہ قراقرم، جو اہل علاقہ کو دیگر شہروں اور صوبوں سے ملاتی ہے، کو بند کردیا گیا۔ علاوہ ازیں ضلعی انتظامیہ نے عوام کے تحفظ کے لیے بابو سر ٹاپ اور چلاس کی شاہراہ کے لیے مخصوص اوقات کار کا نوٹیفکیشن بھی جاری کیا ہے۔