گلگت بلتستان کے سابق وزیر اعلیٰ خالد خورشید کو عدالت کی جانب سے جعلی ڈگری کیس میں ہٹائے جانے کے انتخابی عمل میں پاکستان تحریک انصاف کے فارورڈ بلاک کے امیداور گلبر خان گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے۔
خالد خورشید کے ہٹائے جانے کے بعد حاجی گلبر خان نے فارورڈ بلاک بنانے کا اعلان کیا تھا اور ساتھ میں یہ بھی کہا تھا کہ ان کے ساتھ اسمبلی کے سات سے آٹھ پاکستان تحریک انصاف کے دیگر اراکین بھی ہیں اور انہوں نے وزارت اعلیٰ کے لیے بطور امیدوار کاغذات جمع کرائے ہیں۔
اسی طرح دیگر امیداروں میں پی ٹی آئی کے راجا اعظم بھی تھے جبکہ دیگر امیدواروں میں پاکستان مسلم لیگ کے انجینیئر محمد انور، اور جمیعت علمائے اسلام کے رحمت خالق تھے لیکن ووٹنگ میں پی ٹی آئی فارورڈ بلاک کے امیدوار 19 ووٹ کے ساتھ منتخب ہوئے۔
گلگت بلتستان اسمبلی کے 33 اراکین میں سے 22 اراکین پی ٹی آئی کے ہیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چار، پاکستان مسلم لیگ کے تین، جمیعت علمائے اسلام اور مجلس وحدت مسلمین کے ایک ایک رکن موجود ہیں جبکہ باقی آزاد اراکین ہے۔
گلگت بلتستان کے نو منتخب وزیر اعلیٰ مردان پولیس کو مطلوب
گلگت بلتستان کے نومنتخب وزیر اعلیٰ گلبر خان مردان پولیس کے مطابق 2015 کے ایک چیک باؤنس ہونے کے مقدمے میں مردان پولیس کو مطلوب ہیں۔
یہ مقدمہ سابق سینیٹر سلیم الرحمٰن کی جانب سے 2015 میں پارہوتی پولیس سٹیشن میں درج کیا گیا تھا۔
پارہوتی پولیس سٹیشن کے اہلکار امیتاز خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حاجی گلبر خان، جن کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے، ہمیں ایک جعلی چیک سے منسلک مقدمے میں مطلوب ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ 2015 میں انہوں نے سلیم الرحمٰن نامی شخص کو 12 لاکھ کے دو بینک چیک دیے تھے اور یہ مجموعی طور پر 24 لاکھ روپے کے چیکس تھے لیکن چیک کیش کرنے کے لیے جب مدعی گئے تھے تو اکاؤنٹ میں پیسے نہیں تھے۔
امیتاز خان نے بتایا، ’بعد میں عدالت کی جانب سے حاجی گلبر خان کو اشتہاری ملزم قرار دیا ہے اور ابھی تک یہ ہمیں مطلوب ہے۔‘
اس مقدمے کے حوالے سے گلبر خان نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں اس مقدمے کو بے بنیاد اور جھوٹا قرار دیا ہے۔
بیان میں ان کا کہنا تھا کہ یہ سراسر جھوٹا اور فراڈ مقدمہ ہے اور میری ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا ہے، ’ہمارا ان کے ساتھ (مدعی مقدمہ) کے ساتھ کروڑوں کا لین دین ہے، تو شاید کوئی میرا کوئی چیک لے کر گیا ہوگا یا کوئی فراڈ کیا ہوگا تاکہ میری بے عزتی کر سکے جو ایک ناکام حربہ ہے اور اس میں کوئی صداقت نہیں ہے اور یہ ایک فضول کہانی ہے۔‘
حاجی گلبر خان کون ہیں؟
گلگت بلتستان کے نو منتخب وزیر اعلیٰ حاجی گلبر خان کا تعلق دیامر کے علاقے تنگیر کے ایک سیاسی خاندان سے ہے۔
گلبر خان کے فرسٹ کزن حاجی امیر جان متعدد بار گلگت بلتستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔
حاجی امیر جان کی سیاست سے ریٹائرمنٹ کے بعد حاجی گلبر خان نے سیاست میں قدم رکھ دیا تھا۔ حاجی گلبر خان کے بھائی حاجی نصیب خان دیامر ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین بھی ہیں۔
حاجی گلبر خان نے سیاسی کیرئیر کا آغاز ڈسٹرکٹ کونسل کے رکن بننے سے پہلے کیا تھا اور بعد میں صوبائی سطح پر سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پہلی بار وہ 2009 میں جمیعت علمائے اسلام کے ٹکٹ پر گلگت بلتستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور بعد میں وزیر صحت بن گئے۔
اس کے بعد 2015 میں صوبائی انتخابات میں انہوں نے جمعیت علمائے اسلام کی سیٹ پر انتخابات میں حصہ لیا تھا لیکن پاکستان مسلم لیگ کے امیدوار حاجی وکیل خان کے ہاتھوں انہیں شکست ہوئی تھی۔
اسی طرح 2020 میں جمیعت علمائے اسلام سے راہیں جدا کرنے کے بعد حاجی گلبر خان نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی اور 2020 کے صوبائی انتخابات میں دیامر سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور پی ٹی آئی کے دور حکومت میں دوبارہ وزیر صحت بنا دیے گئے۔
خالد خورشید کے ہٹائے جانے کے بعد جب وزارت اعلیٰ کے انتخابات کا مرحلہ شروع ہوا، تو حاجی گلبر خان نے پارٹی پالیسی کے خلاف فارورڈ بلاک بنا کر خود وزیر اعلیٰ کے امیدوار کے طور پر کاغذات جمع کرا دیے۔
انتخابات سے قبل جمعیت علمائے اسلام کے وزارت اعلیٰ کے امیدوار رحت خالق سے ملاقات کے دوران، انہوں نے گلبر کان کی پینل کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ مبصرین کے مطابق بظاہر تو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے گلبر خان کو اپنا امیدوار نہیں بنایا تھا لیکن غیر اعلانیہ طور پر ان کو پی ڈی ایم جماعتوں کی حمایت حاصل تھی۔
شبیر میر گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے صحافی ہیں اور گذشتہ کئی برسوں سے صحافت کر رہے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے گلبر خان کو سپورٹ کیا ہے اور تب ہی وہ وزیر اعلیٰ بنے ہیں۔
انہوں نے بتایا، ’پی ڈی ایم کی حمایت کا اس سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ منتخب ہونے کے بعد انہوں نے وزیر اعظم شہباز شریف اور پی ڈی ایم میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی کا شکریہ ادا کیا ہے۔‘