گلگت بلتستان کے سابق وزیراعلیٰ حفیظ الرحمٰن کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اس شمالی خطے میں ’ہزاروں چینی باشندوں‘ کی موجودگی کی خبروں میں کوئی حقیقت نہیں اور ان کے بقول گلگت بلتستان میں اس وقت تین سو سے بھی کم چینی شہری موجود ہیں۔
گلگت بلتستان کی شناخت سیاحت رہی ہے لیکن چونکہ یہ علاقہ چینی سرحد کے قریب واقع ہے اس لیے اب اسے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کا ’گیٹ وے‘ بھی کہا جاتا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں حفیظ الرحمٰن کا کہنا تھا کہ جتنا ’پروپیگنڈہ‘ کیا جا رہا ہے، اتنے چینی شہری گلگت بلتستان میں نہیں ہیں۔
’یہ انڈین پروپیگنڈہ چلایا جاتا ہے کہ وہاں 50 ہزار چینی شہری ہیں، آج کیمرے کا زمانہ ہے، ڈیجیٹل زمانہ ہے وہاں جا کر کوئی بھی فوٹیج بنا کے دکھا سکتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا: ’میں نے (اس ہفتے) سپیشل برانچ کی ایک رپورٹ دیکھی تھی جس میں 270 چینی گلگت بلتستان میں کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے 100 کان کنی سے وابستہ ہیں، 100 کے قریب مقامی لوگوں کے ساتھ چیری کے کاروبار سے متعلق معاہدے کے لیے آئے ہوئے ہیں اور 50 کے قریب دیامیر بھاشا (ڈیم) کے منصوبے پر کام کے لیے ہوں گے۔‘
حفیظ الرحمٰن کا تعلق اس وقت مرکز میں برسراقتدار جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) سے ہے اور وہ 2015 سے 2020 تک گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔
انٹرویو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کی 30 فیصد معیشت کا انحصار چین کے ساتھ تجارت پر ہے، اس لیے علاقے کے لوگ چین کے ساتھ تعلقات کی اہمیت سے آگاہ ہیں اور مقامی آبادی خود چینی شہریوں کی حفاظت کرتی ہے۔ ’مقامی سطح پر تو انہیں کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سابق وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ گلگت کے لوگوں کو اس بات کا احساس ہے کہ وہ دنیا کی ایک بڑی طاقت کے پڑوس میں رہتے ہیں۔
’گلگت بلتستان کی چیری پوری دنیا میں جاتی ہے لیکن چین نہیں جاتی ہے۔۔۔ اس سال شاید چیری کا پھل یہاں (پاکستان) نہیں آئے بلکہ چین جائے گا۔ کم از کم دو چار ارب روپے کی چیری چین جائے گی جو یہاں آ کر 400 روپے (کلو) بکتی تھی وہاں جا کر 1400 روپے میں فروخت ہو گی۔‘
انہوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت اگر مجوزہ صنعتی زون گلگت بلتستان میں بن جاتا ہے تو اس سے وہاں بڑی معاشی تبدیلی متوقع ہے۔
سیاحت کے فروغ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سڑکوں اور بنیادی سرکاری ڈھانچے میں بہتری کے بعد گلگت بلتستان میں سیاحوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 2015 سے پہلے سالانہ لگ بھگ 20 ہزار سیاح وہاں جاتے تھے۔
بقول حفیظ الرحمٰن: ٹورازم پولیس اور سی پیک پیٹرول فورس کے قیام کے بعد امن کی صورت حال میں بہتری آئی ہے۔ ’ہماری حکومت یا سی پیک منصوبہ شروع ہونے سے پہلے گلگت بلتستان میں ہوٹلوں میں 2200 کمرے دستیاب تھے ،اس وقت 32 ہزار کمرے دستیاب ہیں۔‘
گلگت بلتستان کے سابق وزیراعلیٰ کہتے ہیں کہ چینی زبان کو نہ سمجھنا اس علاقے کی ترقی میں بھی ایک رکاوٹ ہے۔ ’دیکھیں آج ہم سات سمندر پار (واقع ممالک میں بولی جانے والی زبان) انگریزی پڑھا رہے ہیں، آپ کے ساتھ ڈیڑھ، سوا ارب کی آبادی ہے اور آپ کا دوست ملک ہے، وہاں آپ اشاروں میں بات کر رہے ہیں یہ کتنا بڑا لمحہ فکریہ ہے۔‘