پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں مہنگائی اور بجلی بلوں کے خلاف جمعے اور ہفتے کو ہونے والی ہڑتال پر تاجر اتحاد کا کہنا ہے کہ اس ہڑتال سے صرف ایک روز میں دس ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔
چیئرمین آل کراچی تاجر اتحاد عتیق میر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ ’اس ہڑتال کے نتیجے میں صرف کراچی میں ایک روز کا نقصان دس ارب روپے تک ہے جبکہ ملکی سطح پر ہونے والے نقصان کا تخمینہ 50 ارب روپے تک ہے۔‘
اس ہڑتال کے دوران کراچی میں تاجر ایکشن کمیٹی کی کال پر اولڈ سٹی ایریا میں قائم شہر کی مرکزی مارکیٹیں بند رہیں۔
عتیق میر کا کہنا ہے کہ ’اس کامیاب شٹرڈاؤن ہڑتال پر کراچی کے تاجر یکجہتی کی علامت بن گئے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’ہڑتال کے دوران کراچی کے تمام بڑے اور اہم تجارتی مراکز مکمل طور پر بند رہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’حکومت نے اب بھی بجلی کے بلوں میں کمی نہ کی تو ہڑتالوں اور احتجاج کا سلسلہ تیز ہوسکتا ہے۔ تاجر پاکستانی عوام کے حقوق کی بھی جنگ لڑ رہے ہیں۔‘
عتیق میر کا کہنا تھا کہ ’اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافے کے مصنوعی رجحان کو بھی روکنا ہوگا۔ پی ڈی ایم حکومت کی تباہ کن مہنگائی کا تسلسل نگراں حکومت میں بھی جاری ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ بجلی کے زائد بل واپس لیے جائیں اور اووربلنگ کا خاتمہ کیا جائے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’نگراں حکومت ایف بی آر کو ہدایت کرے کہ وہ بجلی کے بلوں پر عائد ٹیکسز ختم کرے۔ پیٹرول کی قیمتیں مزید بڑھنے سے عوام کے اشتعال میں اضافہ ہوا ہے۔‘
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ’حکومت ملک کو بدترین معاشی بدحالی اور مہنگائی کے دلدل سے نکالنے کے فوری اقدامات کرے۔ تاجروں کو ایسے فیصلے کرنے پر مجبور نہ کیا جائے کہ وہ طویل ہڑتالیں اور احتجاج کرنے پر مجبور ہوجائیں۔
’بجلی کی قیمتوں میں کمی بلوں پر تمام ٹیکس ختم کیے جائیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہوشربا مہنگائی کے باعث لوگ خودکشیوں کی جانب راغب ہورہے ہیں۔‘
بجلی کے بلوں اور مہنگائی کے خلاف کراچی کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اس حوالے سے گذشتہ دنوں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کابینہ اجلاس بھی طلب کیا تھا۔
جبکہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر کو طلب کرکے بریفنگ مانگی تھی جنہوں نے کمیٹی کو بتایا تھا کہ مالی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے عوام کو سبسڈی نہیں دی جا سکتی۔
تاہم بعد ازاں اس حوالے سے بھی رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ نگران حکومت نے ریلیف دینے کا معاملہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے سامنے رکھا ہے۔
دوسری جانب نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کہ چکے ہیں کہ بجلی کے بلوں کے حوالے سے مختلف آپشنز پر بات ہو رہی ہے جن کے نتائج جلد سامنے آ جائیں گے۔
دوسری جانب مہنگی بجلی پر احتجاج کے معاملے پر سابق وزیرِ دفاع اور رہنما پاکستان مسلم لیگ ن خواجہ آصف نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں کہا ہے کہ ’بعض شہروں اور بعض مارکیٹوں میں 85 فیصد بجلی چوری ہوتی ہے۔ بجلی چوری کا نقصان پورا کرنے کے لیے ریٹ بڑھا دیا جاتا ہے۔‘
خواجہ آصف نے مزید کہا کہ ’اللہ کی دی ہوئی روشنی کوئی استعمال نہیں کرتا۔ دن 12 بجے کے بعد مارکیٹیں کھلتی ہیں۔‘
’آٹھ بجے مارکیٹ بند کرنے سے نقصان سےتاجروں کا نقصان ہو گا‘
بقول عتیق میر: ’کراچی میں 45 لاکھ سے زیادہ روزانہ اجرت پر کام کرنے والے لوگ ہیں اس کے علاوہ بہت سارے چھوڑے بڑے ہوٹلز ہیں۔ ایسے میں حکومت کی آٹھ بجے دکانیں بند کرنے کی کی پالیسی سمجھ سے باہر ہے کیونکہ کراچی کے عوام مارکیٹوں اور ہوٹلز کا رخ شام کے اوقات میں کرتے ہیں۔
ان کے مطابق ’ایسے میں جلدی دکانیں کھولنے کا کوئی فائدہ نہیں جب عوام ہی گھروں سے ٹھنڈے اوقات کار میں مارکیٹوں کا رخ کرتے ہیں تو ہم تاجر بھی یہی سوچتے ہیں کہ کچھ دیر اور دکانیں کھول کر رکھیں جس سے کچھ تو منافع کما سکیں۔‘
ادھر کراچی الیکٹرانک ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر رضوان عرفان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وفاقی حکومت کی بجلی بچت کے حوالے سے جو پالیسی ہے کہ جلدی دکانیں کھولیں اور بند کریں۔ اس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن جب کسٹمر ہی شام میں گھروں سے نکل رہا ہے ایسے میں ہمیں کچھ نہیں بچے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’کاروبار جلدی بند کرنے کی صورت میں آٹھ ارب روپے کا جو نقصان ہے وہ صرف تاجروں کی جانب سے ادا کیے جانے والے انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور ودہولڈنگ ٹیکس کی مد میں ہے جب کہ اس پابندی کے دیگر مالی نقصانات علیحدہ ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس فیصلے کے پیش نظر پیک آورز میں بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں کو تقریباً 600 ارب روپے کا نقصان ہو گا۔ اس لیے بجلی کی بچت کے نام پر معیشت کا پہیہ روکنے سے فائدے کی بجائے عملی طور پر حکومت کو نقصان ہی ہو گا۔ اس کے علاوہ پیک آورز میں تو مارکیٹ لوڈ شیڈنگ کی زد میں آجاتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’تاجر برادری و عوام حالیہ مہنگائی سے فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور جرائم میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ تاجر پیک آورز میں بجلی کی فی یونٹ کے 73 روپے دیتے ہیں جس سے حکومت کو فائدہ ہی ہوتا ہے۔‘