مزاح اس لیے اپنایا جو کہوں وہ لوگوں کو سننا گوارا ہو: انور مسعود

انور مسعود نے تین زبانوں اردو، پنجابی اور فارسی میں شاعری کی، مگر ان کی وجہ شہرت پنجابی زبان میں مزاحیہ شاعری بنی، جس میں انہوں نے پاکستان کے عوام کے مسائل کو شستہ انداز میں بیان کیا ہے۔

پنجابی، اردو اور فارسی میں شاعری کرنے والے انور مسعود 29 اگست 2023 کو اسلام آباد میں واقع اپنے گھر پر انڈپینڈنٹ اردو کو انٹرویو دیتے ہوئے (انڈپینڈنٹ اردو)

پنجابی زبان میں مزاحیہ شاعری کے لیے پاکستان سمیت دنیا بھر میں پہچانے جانے والے انور مسعود کی مشہور نظم ’بنیان‘ کا بقول ان کے کئی زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔

انور مسعود نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ مجھ سے کسی نے پوچھا کہ آپ کا مسلکِ شعر کیا ہے؟ میں نے کہا: ’میں جو بات کہوں اسے ایک پروفیسر سنے تو وہ بھی داد دے اور ایک چھابڑی والا سنے تو اس کے بھی دل کو لگے۔

’میں نے لوگوں کی باتیں اور ان کے مسائل ان کی زبان میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔‘

اس خصوصی نشست میں انہوں نے اپنی شاعری کے لیے انتخاب، زندگی کی کھٹی میٹھی یادوں اور پاکستان میں فنکاروں کے ساتھ روا رکھے جانے والے برتاو کے بارے میں گفتگو کی۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں مزاحیہ انداز میں شاعری کرنے کی وجہ انہوں نے اپنے ہی ایک شعر سے بتائی کہ:

یہ جو ہنسنا ہنسانا ہوتا ہے، رونے کو چھپانا ہوتا ہے

میں اس لیے ہنسا ہوں کہ کہیں رو نہ پڑوں

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’کسی کے سوال کرنے پر میں نے کہا تھا کہ میری ہنسی مکئی کی طرح ہے، جب جلنے لگتی ہے تو مسکرانے لگتی ہے۔ میرے دکھ صرف میرے نہیں ہیں، یہ ملک جس میں میں رہتا ہوں جب سے بنا ہے بحرانوں کا شکار ہے، میں اس دنیا میں رہ رہا ہوں جس کے وڈیرے وہ ہیں جنہیں لوگوں کا خون پینے سے فرصت ہی نہیں ہے۔‘

انور مسعود نے بتایا کہ ’ہنسنے کے سوا میرے پاس کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ میں نے مزاح کا انداز اس لیے اپنایا کہ جو میں کہوں وہ لوگوں کو سننا گوارا ہو جائے۔ رلانا تو بہت آسان ہے، ہنسانا تو اتنا آسان نہیں ہے، جو بات ہنسی کے انداز میں کہی جائے وہ لوگوں کو پسند آتی ہے۔‘

انہوں نے شاعری کو اللہ کی رحمت سے تعبیر کرتے ہوئے لکھا کہ ’اللہ تعالیٰ کی ذات کا ہی کرم ہے کہ مجھے مثبت سوچ اور رویہ عطا کیا۔ دراصل میں نے جو کچھ لکھا ہے وہ میں نے جو کچھ دیکھا ہے اس پر اظہار کیا ہے، یا خوشی کا یا دکھ کا۔‘

اس سوال پر کہ شاعری کا سفر کیسے شروع ہوا اور وہ کیا سمجھتے ہیں کہ شاعری کیفیت ہے، قابلیت ہے یا رحمت، ان کا کہنا تھا: ’میری شاعری مجھ پر اللہ کی رحمت اور کرم ہے۔ مجھے ددھیال اور ننہیال سے بھی شاعری تحفے میں ملی ہے۔ میری نانی بھی شاعرہ تھیں، میرے تایا جی بھی شاعر تھے۔ شاعری میری جینز میں ہے۔ لیکن میرا یہ ماننا ہے کہ کوئی بھی فن ہو اس کے لیے محنت بہت ضروری ہے۔

’قرآن پاک میں بھی ارشاد ہے کہ انسان کو اتنا کچھ ہی ملتا ہے، جتنی وہ کوشش کرتا ہے۔ تو اللہ سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ کوشش کی توفیق عطا فرمائے۔‘

پچپن برس کی رفاقت کے بعد، تین برس قبل انور مسعود کی اہلیہ صدیقہ انور انہیں داغ مفارقت دے گئیں۔ انہوں نے اپنی اہلیہ کو لکھے گئے خطوط کو گذشتہ برس کتابی شکل میں شائع کروایا، جس کا نام رکھا گیا ’صرف تمہارا۔‘

اپنی اہلیہ کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’اگر صدیقہ نہ ہوتیں تو آج میں یہ انور نہ ہوتا جو آپ کے سامنے موجود ہے، میں ان کے بغیر نامکمل ہوتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ مجھے جو بھی ملا ہے اس میں ان کا بہت حصہ ہے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائیں۔‘

ساتھ ہی انہوں نے اپنی اہلیہ کی یاد میں لکھا ہوا ایک شعر سنایا:

دل میں ہے اس کی یاد کی خوشبو بسی ہوئی
 پچپن برس کا عہد رفاقت گزر گیا

انہوں نے صدیقہ انور کے ساتھ گزرے لمحات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ’مجھے ان کی ایک بات بہت یاد آتی ہے کہ وہ بہت اچھی ناقد تھیں، ان کے اندر تنقید کی بہت زبردست حس تھی۔ میں نے ایک شعر لکھا:

ہے کون تیرے ساتھ جو سیلفی نہ بنائے
انور مجھے ہر شخص تیرا فین لگا ہے

’میری اہلیہ نے کہا، لگا ہے نہیں، اسے آپ لگے ہے کر دیں۔ اب میں نے یہ شعر ان کے کہے کے مطابق کر دیا ہے۔‘

پاکستان کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ یہاں شاعروں کی قدر نہیں کی جاتی، کیا انہیں بھی ایسا ہی لگتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ان کہنا تھا کہ ’مجھے 2000 میں پرائیڈ آف پرفارمنس ملا۔ حال ہی میں حکومت پاکستان نے ہلال امتیاز کا ایوارڈ دیا۔ سب سے برا ایوارڈ یہ ہے کہ ایک چھابڑی والا بھی مجھے میری نظمیں سناتا ہے، عوام میں اتنی مقبولیت، یہ اللہ کا سب سے بڑا احسان ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے ایک واقعہ بیان کیا کہ ’جوش صاحب سے کسی نے پوچھا کہ اردو کا سب سے برا شاعر کون ہے تو انہوں نے فوراً کہا نذیر اکبر آبادی۔ کیوں کہ نذیر نے عوام کے مسائل کو عوام کی زبان میں بیان کیا ہے اور میں نے بھی کچھ ایسی ہی کوشش کی ہے بلکہ مجھے بہت سے نقادوں، جن میں احمد ندیم قاسمی بھی شامل ہیں، نے کہا ہے کہ انور مسعود پنجابی کے نذیر اکبر آبادی ہیں۔‘

گفتگو دوبارہ شاعری کی جانب آئی تو انہوں پاکستان کے مزاحیہ شاعروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے ہی نہیں، جتنے بھی مزاح نگار ہیں انہوں نے ردعمل دیا ہے۔ پاکستان کے مزاح نگاروں نے بہت اچھی حزب اختلاف کا فرض ادا کیا ہے، خواہ وہ ضمیر جعفری ہوں، سید محمد جعفری ہوں، دلاور فگار ہوں، سرفراز شاہد ہوں اور چاہے میں ہوں۔‘

اپنے یادگار مشاعروں کے بارے میں انور مسعود نے بتایا کہ ’خواہ پاکستان میں یا بیرون ملک، مجھے کہیں بھی کبھی اجنبیت محسوس نہیں ہوئی۔ پیرس میں میں نے مشاعرہ پڑھا تو مجھے یوں لگا کہ میں لاہور میں پڑھ رہا ہوں اور اگر میں نے واشنگٹن میں پڑھا تو مجھے یوں لگا کہ گجرات میں پڑھ رہا ہوں۔‘

’لاہور میں ایک مشاعرہ ہوا، جس میں سہیل احمد (عزیزی) کے نانا جی ڈاکٹر فقیر محمد فقیر میزبان تھے، میرے پاس پنجابی کی ایک ہی نظم تھی جو میں نے بہت پہلی لکھی تھی، اس کا نام پنچائیت تھا۔ جب وہ میں نے پڑھی تو آپ یقین کریں ایسا لگا کہ چھت اڑنے لگی ہے۔ ڈاکٹر فقیر صاحب نے سٹیج پر یہ جملہ کہا: اس لڑکے نے یہ نظم لکھ کر وہ کام کیا ہے جو دیہات سدھار (اس وقت کا ایک محکمہ) نے سات سال میں نہیں کیا۔‘

اس نظم کے بعد مشاعرہ ختم کر دیا گیا کیوں کہ انہیں معلوم تھا کہ اتنی داد کسی کو مل ہی نہیں سکتی تھی۔ یہ واقعہ میں نہیں بھول سکتا۔

آخر میں نئے شعرا کے لیے انور مسعود نے پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ’ہر ایک پھول کا اپنا رنگ ہوتا ہے، اپنی خوشبو ہوتی ہے۔ لیکن جو بھی ہنر ہو اس کے لیے بہت محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں نے اپنی ایک نظم ’توں کی جانڑے بھولی اے مَجھے انارکلی دیاں شانڑاں‘ اس کا ایک مصرع ہے، بوتل دے نال منہ نہ لائیں، منہ اچ پا لئیں کانا‘ میں نے اس ایک لفظ کو آٹھ مہینے سوچا، جب یہ لفظ مجھے مل گیا تو مجھے اتنی خوشی ہوئی جو 'ان بیان ایبل' (ناقابل یقین) ہے۔ لہٰذا محنت ضرور کریں کہ یہی کامیابی کی کنجی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ادب