دہلی جہاں جی20 ممالک کے سربراہانِ مملکت کا اجلاس ہو نے جا رہا ہے، وہاں سے صرف 70 کلو میٹر کے فاصلے پر ایک مسلم اکثریتی ضلعے میں شہریوں کو شکایت ہے کہ انہیں پولیس کی جانب سے ’انتقامی کارروائی‘ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کئی مقامی مسلمان شہریوں نے اس تاثر کی تائید کی ہے۔
ایسے ہی ایک شہری حاجی شریف کا کہنا ہے کہ ’یہ تو میڈیا، انتظامیہ اور حکومت سب جانتے ہیں کہ دنگا کس نے کیا ہے، کون کر کے گیا ہے اور سزا کون بھگت رہا ہے؟‘
بجرنگ دل کا جلسہ اور دنگے
فسادات کے دوران سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ بھی کی گئی جس میں بجرنگ دل نامی تنظیم کے جلسے میں ایک مقامی لیڈر ہجوم کو قائل کر رہا ہے کہ علاقے میں کسی ’نائی‘ کی دکان نہیں ہونی چاہیے۔ تاہم بجرنگ دل نے ان فسادات میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔
"Hindu hitoñ ka khanan hua to Khoon bahega Sadkoñ pe"
— Meer Faisal (@meerfaisal01) August 2, 2023
Standing just outside the Nangloi police station, a Hate speech is being given to "shed blood on the streets." There is talk of making Muslims vacate their shops and boycotting them. These goons have a free hand from the… pic.twitter.com/m3RDxu6oVi
اس کے بعد میوات کی مسلمان آبادی کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا جس سے میوات کے مسلمان شہریوں کو لاکھوں روپے کا نقصان ہوا۔
میوات کے مسلمان خاندانوں کی اکثریت متمول تھی اور مقامی سطح پر کاروبار اور مارکیٹیں انہی کی ملکیت تھیں۔ لیکن اب ان کی تمام جمع پونجی تباہ ہو چکی ہے۔
حاجی شریف بھی میوات کے بڑے کاروباری مسلمان شخصیات میں سے ایک تھے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ بھاٹیہ کوچنگ سینٹر تھا میرا۔ ایک ریستوران تھا۔ ایک پیزا کی دکان تھی۔ ایک سیلون تھا۔ ایک سروس سٹیشن ہے۔ ایک میڈیکل لیب تھی۔ سب میں پیسہ لگا ہوا ہے۔ کوچنگ سینٹر میں ایک ایک پروجیکٹر 65، 70 لاکھ روپے کا لگا ہوا ہے۔ دو سیٹیلائیٹ ریسیور رکھے ہوئے تھے وہاں اڑھائی اڑھائی لاکھ روپے کے۔ تو تھوڑا پیسہ تو نہیں لگا ہوا تھا۔‘
حاجی شریف کی یہ تمام املاک اب تباہ ہو چکی ہیں۔
محمد عارف کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ پیش آیا۔ میوات کے کاروباری علاقے میڈیکل گیٹ پر واقع 45 دکانوں میں سے 22 ان کی ملکیت تھیں۔
عارف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی 22 دکانیں ’ختم کر دی گئیں۔ کمانے کا جو نظام تھا۔ سارا انہوں نے صفر کر دیا ہے۔ بالکل فٹ پاتھ پر لے آئے ہیں۔ ایسے ہی سب کے ساتھ ہوا۔ بالکل نل بٹہ سناٹا ہو گیا ہے۔ زمین بیچ کر دکانوں میں پیسہ لگایا تھا۔ اب بتائیں کیا کریں؟‘
میوات کی ایک مذہبی شخصیت مولانا حکیم الدین نے اس صورت حال کو ’خوف ناک‘ قرار دیتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مسلم آبادی کو سہما دیا گیا ہے۔ یہ سہمے ہوئے ہیں۔ ایک طرح کا خوف ہے کہ رہنا یہیں ہے۔ کھانا کمانا یہاں ہے۔ لیکن مایوسی کے ماحول میں رہ کر کھانا کمانا کیسے ہو سکتا ہے؟‘
اس خوف کی تصدیق ایک اور مسلمان شہری محمد حنیف نے بھی کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’ہمیں زمین بیچنی پڑ سکتی ہے۔ اب تک تو نہیں بکی۔ لیکن آگے اپنے کام کروانے کے لیے یا بچوں کو چھڑانے کے لیے تو زمین بیچنی پڑے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فسادات کے بعد مبینہ انتقامی کارروائیاں
ہریانہ پولیس نے تسلیم کیا ہے کہ دنگوں کے بعد گرفتار ہونے والوں کی اکثریت مسلمان شہریوں کی ہے۔
ہریانہ پولیس کے ایک سینیئر افسر نے انڈین اخبار دی پرنٹ کو نام ظاہر نہ کیے بغیر بتایا کہ ’ہاں گرفتاریوں کی تعداد 170 سے زائد ہے۔ زیادہ تر ملزمان مسلمان ہیں۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ تشدد میں شامل ہندوؤں کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی۔‘
میوات کے نواحی علاقے نوح، جو دنگوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، کے ایس پی نریندر بجرنیا نے ’مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ کارروائی‘ کے الزامات کو ’مسترد‘ کر دیا اور کہا کہ ’تمام گرفتاریاں ثبوتوں کی بنیاد پر ہوئی ہیں۔ گرفتاری سے قبل لوگوں کی تاریخ پیدائش بھی چیک کی گئی۔‘
تاہم مسلمان شہریوں کا موقف ہے کہ گرفتاریوں کا جواز دنگوں کے وقت کی موبائل لوکیشن کو بنایا جا رہا ہے۔
محمد حنیف کے تین بیٹے حالیہ واقعات سے متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میرے دو بیٹے گرفتار ہیں اور ایک کو گولی مار دی گئی ہے۔‘
تفصیلات بتاتے ہوئے محمد حنیف کا کہنا تھا کہ ’ میرے بڑے بیٹا افضل نے صرف اتنا کہا تھا کہ نوح میں دنگا ہو گیا ہے، یہاں آؤ تو دیکھ کر آنا۔ بس اتنی بات اس نے وٹس ایپ گروپ میں کہہ دی اور اس پر اسے پولیس نے اٹھا لیا۔‘
گو کہ پولیس کی جانب سے گرفتار مسلمانوں کی تعداد 100 سے بھی کم بتائی جا رہی ہے لیکن مسلمان برادری کی ایک غیر سرکاری مقامی تنظیم جمعیت علمائے ہند کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد 300 سے 500 کے درمیان ہو سکتی ہے۔
جمعیت علمائے ہند کے مطابق ’300 سے 500 مسلمان مرد اور خواتین کو گرفتار کیا گیا ہے۔ زیادہ تر گرفتاریوں کی بنیاد یہ ہے کہ ملزمان کی موبائل لوکیشن فساد کے آس پاس تھی۔‘
محمد حنیف نے ہریانہ پولیس پر الزام لگایا کہ ان سے ’50 ہزار روپے رشوت‘ لے کر ان کے ’بیٹے پر تشدد نہ کرنے کی یقین دہانی‘ کروائی گئی۔
تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ رقم انہوں نے براہ راست پولیس کو دی تھی تو ان کا کہنا تھا کہ ’پولیس کی جانب سے کوئی شخص پیغام لے کر آیا تھا۔‘
محمد حنیف نے بتایا کہ ’پیسہ بھی گیا اور بیٹا بھی گولی لگنے سے معذور ہو گیا۔‘
گرفتاریوں کے علاوہ مسلمان برادری کے دکانوں اور گھروں کو تجاوزات قرار دے کر مسمار کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس سے مقامی مسلمان برادری کی کاروباری شخصیات کو لاکھوں روپے کا نقصان ہوا ہے اور ان کی جائیداد تباہ ہو چکی ہے۔
مولانا حکیم الدین کا کہنا ہے کہ ’بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔ اس نقصان کو جلدی پورا کرنا ناممکن ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ سروے کرائے۔ جن لوگوں کے ساتھ ناانصافی اور زیادتیاں ہوئی ہیں۔ ان ناانصافیوں اور زیادتیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں معاوضہ دینا چاہیے۔ چاہے وہ فسادات کے بعد اپنے گھروں میں رہے ہوں یا کہیں اور رہے ہوں۔‘
رہائشی علاقے نوح کے ڈپٹی کمشنر دھریندر کھٹگٹا نے ہندوستان ٹائمز کو بتایا ہے کہ ’ہم نے پہلے غیر قانونی گھروں، دوکانوں اور تجاوزات کی شناخت کی اور پھر ضروری اقدامات کے بعد انہدامی کارروائی کی۔ کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی اور نہ ہی کسی کو نشانہ بنایا۔‘
میوات میں بلڈوزر کی کارروائی ہریانہ اور پنجاب ہائی کورٹ کی مداخلت کے بعد سات اگست 2023 کو روک دی گئی تھی۔ تاہم پولیس کی کارروائی جاری ہے۔ جس میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔