صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں پیر کو سکیورٹی فورسز کی گاڑی کے قریب دھماکے میں ایک اہلکار مارا گیا جب کہ آٹھ افراد زخمی ہوئے جن میں فرنٹیئر کور کے اہلکار بھی شامل ہیں۔
یہ دھماکہ پشاور ورسک روڈ پر ہوا اور اس کی نوعیت کے بارے میں فوری طور پر کچھ نہیں بتایا گیا۔
مچنی گیٹ تھانہ کے ایس ایچ او شیر عالم خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ زخمی ہونے والے اہلکاروں میں چھ ایف سی اہلکار اور دو عام شہری شامل ہیں جنہیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ ایف سی کی دو گاڑیاں ورسک روڈ سے گزر رہی تھیں جن میں سے ایک کو نشانہ بنایا گیا جب کہ دوسری گاڑی محفوظ رہی۔
پشاور پولیس کے ایس ایس پی ارشد خان نے دھماکے کے مقام پر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ اس کی واقعہ کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
تاحال کسی نے اس بم دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
پاکستان میں حالیہ مہینوں میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز احمد بگٹی کی پشاور ورسک روڈ پر سکیورٹی فورسز کی گاڑی کے قریب دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ملک میں انتہا پسندوں کے لئے کوئی جگہ نہیں۔‘
انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’شرپسندوں کے بزدلانہ حملے ہمارے حوصلے پست نہیں کر سکتے۔‘
سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ’ملک سے دہشت گردی کی لعنت ختم کر کے ہی دم لیں گے اور سکیورٹی فورسز دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں۔‘