خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ کے صدر مقام خار میں گذشتہ دنوں ایک جسلے کے دوران جان کھونے والوں میں ایک 11 سالہ لڑکا ابوذر بھی تھا جو وہاں پاپڑ بیچ کر بہنوں کے لیے پیسے کمانا چاہتا تھا۔
ابوذر کے والد جاوید خان نے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ ایک خصوصی گفتگو میں اپنی درد بھری کہانی سنائی کہ جب انہیں خودکش حملہ کی خبر ملی تو ان پر کیا گزری۔
بیٹے کے غم سے نڈھال جاوید فاتحہ خوانی کے لیے اپنے گھر سے باہر بیٹھے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جب یہ حادثہ ہوا تو اس وقت میں گھر پر موجود نہیں تھا۔ میں بھائی کے ساتھ مزدوری کے لیے مارکیٹ گیا ہوا تھا۔‘
اپنے ہی علاقے میں دھماکہ ہو اور فکر نہ ہو یہ کیسے ممکن تھا۔ جاوید نے بتایا کہ اس وقت انہوں نے اپنے گاوں والوں کو فون کر کے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ کوئی زخمی تو نہیں ہوا، تو انہوں جواب میں بتایا گیا کہ گاوں کا کوئی بندہ اس میں نہیں ہے دیگر علاقوں کے لوگوں کو نقصان زیادہ پہنچا ہے۔
’جب میں واپسی پرگھر پہنچا تو گھر کا دروازہ بیٹی نے کھولا تو میں نے پوچھا ابوذر کہاں ہے؟ اس نے کہا وہ تو گھر میں نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ دو بجے کے قریب چلا گیا تھا۔‘
جاوید کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے نے چپس پاپڑ بیچنے کے لیے اپنی ماں سے پیسے لیے تھے جنہیں فروخت کرتا تھا اور اس کی کمائی اکثر سات بہنوں میں بانٹ دیتا تھا۔
اتوار کو دوپہر تقریبا4:15 منٹ پر جمعیت علمائے کے زیر اہتمام ہونے والے ورکرز کنونشن پر خودکش دھماکے میں اب تک کے اطلاعات کے مطابق 55 لوگ جان کی بازی کھو چکے ہیں اور 90 کے لگ بھگ زخمی ہیں۔ ان کا تعلق ضلع کے مختلف علاقوں سے ہے۔
اگر ایک طرف اس افسوسناک واقعہ جو گذشتہ ایک عشرے کے دوران سب سے بڑا حادثہ سمجھا جاتا ہے میں جمعیت علمائے اسلام کے متعدد مقامی کارکنان جن میں تحصیل خار کے امیر مولانا ضیا اللہ جان، مجاھد خان، مولانا حمیداللہ جیسے ذمہ دار لوگ شامل تھے تو دوسری طرف مدارس کے اساتذہ، پیش امام اور سکولوں کی کچھ طلباٗ بھی شامل تھے۔ اس طرح اس واقعہ میں متعدد کم عمر بچے بھی لقمہ اجل بنے۔
ابوذر خان کے والد شنڈئی موڑ میں ایک چھوٹے سے مٹی کے کچے مکان میں ایک بھائی کے ساتھ رہتے ہیں۔
انڈ پینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے آنکھوں میں لخت جگر کے غم کے آنسو چھپائے وہ کہہ رہے تھے کہ جب یہ حادثہ ہوا اس وقت وہ باجوڑ سے باہر ضلع دیر منڈہ بازار میں اپنے بھائی کے ساتھ ہتھ گاڑی پر ڈرائی فروٹ بیچ رہے تھے۔
جاوید خان کو جب پتہ چلا کہ ابوذر گھر پر نہیں ہے تو وہ اس کی تلاش میں خار کے ہسپتال پہنچنے اور پوچھا کہ زخمی افراد کہاں ہیں۔
جاوید نے بتایا کہ ’میں زخمیوں کے وارڈ میں گھوم رہا تھا جہاں خاصا رش تھا۔ میں نے دیکھا کہ ابوذر زخمیوں کے وارڈ میں نہیں ہے۔ پھر میں نے لوگوں سے پوچھا کہ مرنے والے کہاں ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہاں پر موجود لوگوں نے جاوید کو مردہ خانے بھیج دیا جہاں پانچ لاشیں پڑی تھیں۔ جاوید نے جب وہاں پہنچے تو ایک لاش کے اوپر سپورٹس بوٹ پڑے تھے۔ ’میں نے کہا یہ تو نہیں ہے۔ دوسرا بچہ جو ابوذر کا بظاہر ہم عمر تھا، اسے دیکھا۔ اس کے بال بڑے تھے جب کہ ابوذر کے بال چھوٹے تھے۔ میں نے کہا یہ بھی نہیں ہے۔ جب میں ایک اور بچے کے پاس آیا تو وہاں لوگوں نے کہا اس کے کپڑے ہیں، یہ چیک کریں کہ اگر یہ کپڑے ان کے ہیں تو پھر لاش آپ کے بیٹے کی ہو گی۔‘
جاوید خان نے کہا کہ ’جب کپڑے میں نے دیکھے تو مجھے شک پڑ گیا۔ وہ کپڑا میں نے جیب میں رکھ کر موٹر سائیکل پر گھر آ گیا اور بیٹی سے پوچھا کہ ابوذر کیا اس رنگ کے کپڑے پہنے گھر سے نکلا تھا۔ بیٹی نے تصدیق کی کہ اس نے اسی رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے۔ گھر والوں نے پوچھا کہ ابوذر کہاں ہے تو میں نے جواب دیا کہ ہسپتال کے مردہ خانے میں پڑا ہے۔‘
جاوید نے مزید بتایا کہ جب وہ واپس ہسپتال گئے تو ابوذر کا سر نہ ہونےکی وجہ سے شناخت نہیں ہو رہی تھی البتہ جسم ، ہاتھ پاؤں اور لباس سے بیٹے کو پہچانا۔
اگرچہ اس سانحہ میں بہت سارے لوگ جان سے گئے اور زخمی ہوئے لیکن کم عمر ابوذرخان کے موت نے ہر آنکھ کو اشک بار کیا اور اس دھماکہ کے بعد پیر کو سوشل میڈیا پر یہ افسوسناک موت لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئی۔
جاوید کی سات بیٹیاں ہیں۔ ابوذر کی عمر 11 سال، جب کہ بڑی بیٹی 13 سال کی ہے۔ وہ جماعت ششم میں پڑھتا تھا۔ جاوید کے ہاں بیٹے کی ولادت چند ماہ پہلے ہوئی تھی۔
جاوید کا کہنا تھا کہ ابوذر کی گرمیوں کی چھٹیاں تھیں اس نے اپنی والدہ سے کہا تھا کہ اسے پیسے دے دیں تاکہ میں اس کے چپس پاپڑ خرید کر انہیں فروخت کروں اور کمائی کے پیسے بہنوں میں تقسیم کروں گا تاکہ میری بہنیں اس غربت میں والد پر بوجھ نہ بنیں۔
’ابوذر کی میت کو صرف پندرہ بیس منٹ تک گھر میں رکھا گیا تاکہ والدہ اور بہنیں تابوت پر ہاتھ رکھ کر تسلی کریں کہ انہیں لاش مل گئی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کا کسی سیاسی پارٹی سے کوئی تعلق ہے اور نہ اج تک ہم نے کسی پارٹی کے جھنڈا اٹھایا ہے۔
ابوذر کے والد کو ضلعی انتظامیہ اور پولیس سے بھی شکوہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ فاتحہ خوانی کے لیے پولیس اور ضلعی انتظامیہ کا کوئی بندہ نہیں آیا البتہ کمانڈنٹ باجوڑ سکاؤٹس کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ دھماکہ کے دوسرے روز فاتحہ خوانی کے لیے آئے تھے اور مالی تعاون بھی کیا۔