اسلام آباد میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت نے پیر کو حکم دیا ہے کہ 15 ستمبر تک عمران خان کی ان کے بیٹوں سے بات کروائی جائے۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے 15 ستمبر تک عدالتی احکامات پر ہر صورت عمل درآمد یقینی بنانے کا حکم دیا۔
عمران خان نے پیر کے روز ہی سپرانٹینڈنٹ اٹک جیل کے خلاف توہین عدالت درخواست دائر کی تھی جسے اسی وقت سن کر فیصلہ کر دیا گیا۔
درخواست کا متن
پیر کی صبح ایڈوکیٹ شیراز رانجھا کے ذریعے دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا کہ ’خصوصی عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی بچوں سے ملاقات کا حکم دیا تھا، عدالتی احکامات کے باوجود چیئرمین پی ٹی آئی کی ان کے بچوں سے ٹیلی فون پر بات نہیں کروائی گئی۔‘
درخواست میں استدعا کی گئی کہ سپرانٹینڈنٹ اٹک جیل کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا جائے اور ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز کیا جائے۔
درخواست میں مزید لکھا گیا کہ ’سپرانٹینڈنٹ اٹک جیل نے کہا کہ ملزم آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت گرفتار ہے اس لیے ٹیلی فون یا واٹس ایپ پر بات نہیں کروائی جا سکتی، سپرانٹینڈنٹ نے کہا کہ ملزم سے بیرون ملک بیٹھے بچوں کی ٹیلی فون پر بات نہیں کروا سکتے۔‘
درخواست میں استدعا کی گئی کہ ’آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت فون پر بات کروانے میں کوئی قدغن نہیں لہذا عمران خان کی بچوں سے ٹیلی فون، وٹس ایپ کے ذریعے بات کروانے کا حکم دیا جائے۔‘
مرکزی درخواست ضمانت کی سماعت میں کیا ہوا؟
سیکرٹ ایکٹ عدالت میں سائیفر کیس میں عمران خان، شاہ محمود قریشی کی درخواستِ ضمانت پر ان کیمرہ سماعت شروع ہوئی تو سپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی، شاہ خاور، رضوان عباسی روسٹرم پر آئے اور خصوصی جج ابوالحسنات نے سماعت کی۔
سپیشل پروسیکیوٹر کی جانب سے دلائل دیتے ہوئے اسد عمر کی 14 ستمبر کو درخواست ضمانت کی سماعت مقرر ہونے کا حوالہ دیا گیا۔ استغاثہ نے اسدعمر کی درخواست ضمانت کے فیصلے سے قبل چیئرمین پی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی کی ضمانت پر دلائل سننے پر اعتراض کر دیا۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ خصوصی عدالت میں سائفر کیس میں عمران خان کی درخواست ضمانت پر پراسیکیوشن نے تکنیکی اعتراض عائد اٹھا دیا۔
ایف آئی اے کی دائر درخواست میں کہا گیا کہ ’شریک ملزمان کی ضمانت کی درخواستوں کی تفصیل کا تصدیق نامہ درخواست کے ساتھ منسلک نہیں ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست کے ساتھ تصدیق نامہ منسلک کرنا ضروری تھا۔ جس میں لکھا ہو کہ اس کیس میں شریک ملزم قبل از گرفتاری ضمانت کا معاملہ اس عدالت کے سامنے پہلے سے موجود ہے جو 14 ستمبر کے لیے مقرر ہے۔‘
مزید کہا گیا کہ ’سپریم کورٹ اپنے فیصلوں میں سرٹیفکیٹ منسلک کرنا لازمی قرار دے چکی ہے۔ تصدیق نامہ نہ ہونے کی وجہ سے چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست قابل سماعت نہیں، لہذا چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست کو نہ سنا جائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عدالت نے ایف آئی اے کی درخواست پر ہدایت دیتے ہوئے پی ٹی آئی کو تصدیق نامہ منسلک کرنے کی ہدایت کر دی اور درخواست ضمانت پر اعتراضات دور کرنے کی ہدایت کر دی۔
عدالت نے کہا کہ اسدعمر، عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی درخواست ہائے ضمانت الگ الگ سنی جائیں گی۔
عدالت نے سائفر کیس کی سماعت 14 ستمبر تک ملتوی کر دی۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا مقدمہ درج
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سیکرٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر کی مدعیت میں مقدمے کا اندراج ہو چکا ہے۔
مقدمے میں انہیں سفارتی حساس دستاویز سائفر کو عام کرنے اور حساس دستاویز کو سیاسی مفاد کے لیے اور ملکی اداروں کے خلاف استعمال کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ میسر معلومات کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان جو پہلے ہی اٹک جیل میں زیر حراست تھے، توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی کے باوجود ان کو اس مقدمے میں شامل کر کے اٹک جیل میں ہی جوڈیشل ریمانڈ پر رکھا گیا ہے جبکہ شاہ محمود قریشی کو 19 اگست کو گرفتار کیا گیا تھا اور وہ بھی اب جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل میں ہیں۔ 20 اگست کو سابق وفاقی وزیر اسد عمر کو بھی ایف آئی اے کاؤنٹر ٹیررازم ونگ نے پوچھ گچھ کے لیے بلایا تھا جس کے بعد اسد عمر نے ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دائر کی تھی۔
درج ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ ’اسد عمر اور اعظم خان کے کردار کا تعین کیا جائے گا، اگر وہ ملوث نکلے تو ان کے خلاف بھی قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔‘ اس کے علاوہ اگر کوئی اور بھی ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف بھی کارروائی ہو گی۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے لیے بننے والی خصوصی عدالت اب سابق وزیراعظم عمران خان اور شاہ محمود سے متعلق مقدمے کی سماعت کر رہی ہے جس کی سماعتیں ان کیمرہ ہوں گی۔ شاہ محمود قریشی گزشتہ ماہ خصوصی عدالت میں پیش ہوئے جس کے بعد بند دروازوں کے پیچھے سماعت ہوئی۔