مراکش میں جمعے کو آنے والے تباہ کن زلزلے کے باوجود حکومت خواہاں ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور عالمی بینک کے سالانہ اجلاس شیڈول کے مطابق اکتوبر میں ہی ہوں۔
مراکشی حکومت کے قریبی ذرائع میں سے ایک نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو اس حوالے سے بتایا: ’مراکشی حکام کے نقطہ نظر سے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سالانہ اجلاس شیڈول کے مطابق نو سے15 اکتوبر، 2023 کو ہوں گے، ابھی تک منصوبے میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔‘
ان لوگوں کو اس معاملے پر عوامی طور پر بات کرنے کا اختیار نہیں تھا اور انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی۔
آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے ان ملاقاتوں کے معاملے میں مراکش کے موقف پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ روئٹرز کو انڈیا، فرانس، یورپی یونین اور افریقی یونین کے ساتھ ہفتے کے اختتام پر جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے ان اداروں نے جانی و مالی نقصان پر تعزیت کا اظہار کیا تھا۔
اس بیان میں فوری قلیل مدتی مالی ضروریات کو پورا کرنے سمیت ’مراکش کی بہترین ممکنہ طریقے سے مدد کرنے پر آمادگی‘ کی بات کی گئی تھی۔
دونوں اداروں نے کہا تھا کہ فی الحال ان کی توجہ اس آفت سے نمٹنے پر ہے۔
مراکش سے 45 میل (72 کلومیٹر) جنوب مغرب میں واقع کوہ اطلس کے پہاڑوں میں آنے والے 6.8 شدت کے زلزلے میں مرنے والوں کی تعداد پیر کو تقریبا دو ہزار نو سو تک پہنچ گئی، جب کہ ڈھائی ہزار سے زائد زخمی ہیں۔
سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں مٹی کے روایتی مکانات گرنے سے زندہ بچ جانے والوں کی تلاش خاص طور پر مشکل ہو گئی ہے۔
کچھ نقصان مراکش کے قدیم شہر میں بھی ہوا ہے ، لیکن شہر کے زیادہ جدید حصے کافی حد تک نقصان سے بچ گئے ہیں۔
ایک ذرائع نے کہا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے اجلاس والی جگہ، ہوائی اڈے کے قریب شہر کے مضافات میں عارضی ڈھانچے کا ایک کیمپس، کافی حد تک محفوظ ہے، اور تیاری کا کام جاری ہے۔
اس سے قبل بلومبرگ نے بھی خبر دی تھی کہ مراکشی حکام توقع کر رہے تھے کہ یہ ملاقاتیں ہوں گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سالانہ اجلاسوں میں 190 رکن ممالک کے وفود سے لے کر میڈیا، غیر منافع بخش تنظیموں اور سول سوسائٹی کے گروپوں تک 10 ہزار سے زائد افراد کی شرکت متوقع ہے۔
مراکش میں ہونے والی یہ ملاقاتیں اصل میں 2021 میں ہونی تھیں لیکن کرونا وبا کی وجہ سے دو بار ملتوی کر دی گئیں۔
آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ہر تین سال بعد ایک ایسی ترقی پذیر ملک میں اپنے سالانہ اجلاس منعقد کرتے ہیں جس نے مضبوط معاشی پالیسیوں اور گورننس کا مظاہرہ کیا ہو اور اسے دیگر ممالک کے لیے مثال کے طور پر پیش کیا جاسکے، مثال کے طور پر 2018 میں انڈونیشیا اور 2015 میں پیرو۔
اکتوبر 2018 میں آئی ایم ایف اور عالمی بینک نے انڈونیشیا کے سیاحتی جزیرے بالی میں اپنے سالانہ اجلاس منعقد کیے، جس میں 11 ہزار سے زائد شرکا نے شرکت کی۔ اس اجلاس سے صرف دو ہفتے پہلے سولاویسی جزیرے میں 7.5 شدت کے زلزلے اور سونامی سے چار ہزار 300 افراد مارے گئے تھے۔
بالی کے مشرق میں واقع انڈونیشیا کے جزیرے لومبوک میں بھی جولائی اور اگست 2018 میں آنے والے زلزلوں میں 500 سے زائد افراد مارے گئے اور ہزاروں افراد بےگھر ہوگئے تھے۔
آئی ایم ایف کی اس وقت کی مینیجنگ ڈائریکٹرکرسٹین لیگارڈ نے لومبوک میں قدرتی آفات کی بحالی کے علاقوں کا دورہ کیا جبکہ کرسٹالینا جارجیوا، جو اس وقت ورلڈ بینک کی چیف ایگزیکٹو آفیسر تھیں اور بعد میں آئی ایم ایف کی سربراہ بنیں، نے وسطی سولاویسی میں تباہ حال پالو کا دورہ کیا تھا۔
اس وقت کرسٹین لیگارڈ نے کہا تھا: ’اجلاسوں کو منسوخ کرنا کوئی آپشن نہیں تھا کیونکہ یہ وسائل کا بہت ضیاع ہوتا اور انڈونیشیا کو دنیا کے سامنے پیش کرنے اور مواقع اور ملازمتیں پیدا کرنے کا بڑا موقع ضائع ہو جاتا۔‘