ڈپٹی نذیر احمد نے انیسویں صدی میں اکبری اصغری کے کرداروں سے ایک سگھڑ عورت کو اچھی اور پھوہڑ کو بری عورت سے تعبیر کر کے جو خاکہ پیش کیا تھا وہ آج بھی خواتین کی حیثیت کا تعین کرنے کے لیے ہمارے سماجی بیانیے کی اساس ہے۔
اسی برس عورت مارچ پر معاشرے کے ہر طبقے کی جانب سے آنے والا ردعمل پاکستانی سماج میں خواتین کے کردار اور حیثیت کے بارے میں تصورات کا بھرپور عکاسں تھا۔ معاشرے کی روائتی سوچ کے مطابق اچھی عورت وہ ہے جو بلا چوں چراں سب کی خدمت کرے۔ اپنی ذات، اپنے تشخص جیسے احساسات سے عاری ہو اور اگر فرض کیا ایسا کوئی آگہی کا دکھ لگ بھی جائے تو کم از کم عورت اس کا اظہار کرنے سے پہلے سو بار سوچے۔ سماجی کردار میں عورت اور مرد کی شراکت داری کا تعین کرتے ہوئے عورت کا بہترین مصرف گھر داری قرار پایا۔ صدیوں سے رائج اس نظام کے تحت آج معاشرے کی اکثریت گھر داری کو وہ بنیادی ذمہ داری سمجھتی ہے جس کی وجہ سے عورت کی تخلیق کی گئی ہے۔ اگر خواتین کو کامیاب اور کامران کہلانا ہے تو اس کا واحد طریقہ یہ ہے کہ وہ امور خانہ داری میں خود کو باصلاحیت ثابت کریں۔
یہ سماجی سوچ ہی عورتوں کے ملازمت کرنے اور پیشہ ورانہ شعبوں میں کم شرح کی وجہ ہے۔ ورلڈ بینک کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستانی خواتین ورک فورس کا صرف 21 فیصد ہیں۔ عورت اپنے پیشے میں کتنی ہی باصلاحیت یا کامیاب کیوں نہ ہو، گھر میں اسے صرف سگھڑ اور غیرمشروط مہربان ہونا ہے۔
خواتین کو محدود سوچ میں مقید کرنے کے رحجان میں ان کی پسند اور دلچسپی کے موضوعات کے ساتھ بھی نتھی کر دیا گیا ہے۔ عورتیں صرف کپڑے جوتے خریدنے میں دلچسپی رکھتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ معاشرتی ناانصافیوں پر یا ملکی معاملات پر بات کرنا ان کی ترجیح کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ تو بس شاپنگ کی باتیں کرنا پسند کرتی ہیں۔ اسی لیے جب عورت مارچ میں خواتین نے معاشرے کی یکطرفہ طے شدہ حدود و قیود اور خود سے جڑے غلط تصورات پر سوال اٹھایا تو صدیوں سے راج کرتی پدر سری کو اپنا وجود خطرے میں محسوس ہونے لگا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عورت مارچ میں سب سے ذیادہ تنقید کا نشانہ بننے والے بیانات اور مطالبات وہ تھے جو سماج کے طے کردار کے مخالف تھے۔ یہ اظہار کرنا کہ مرد اپنا کھانا خود گرم کرے بنیادی طور پر اس بیانیے کے خلاف تھا جس کی بنیاد پر بچیوں کی سماجی تربیت کی جاتی ہے۔ اچھی لڑکیاں اکیلی باہر نہیں جاتیں، وہ معاشرے میں رائج سوچ کے برعکس سوچ نہیں سکتیں۔ جو عورتیں سماج کی مرضی کا لباس پہنتی ہیں وہ حیا کا پیکر ہیں۔
اسی تربیت میں خواتین کو حکم ماننے کی تعلیم اور ترغیب دی جاتی ہے اچھی لڑکیاں بھائیوں کی ہر بات مانتی ہیں۔ اچھی بیٹیاں زندگی کے ہر فیصلے کا اختیار والدین کو دیتی ہیں۔ اچھی بیویاں شوہر کی تابعدار ہوتی ہیں۔ اچھی عورتیں گھر بسانے کے لیے اپنی ذات کو پس پشت ڈال دیتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔
اگر اچھی عورت کے لیے بنائی گئی سماجی تعریفیں مزید گہرائی میں کھوجیں تو پتہ چلے گا کہ اچھی عورت کبھی گھر کے کام کاج سے نہیں تھکتی، نہ کبھی وہ بیمار ہوتی ہے، نہ اسے کبھی کسی آؤٹنگ یا آرام کی ضرورت ہوتی ہے نا ہی اس کے پاس اپنی مرضی سے گھر کے معمولات چلانے کی آزادی ہوتی ہے۔ عورت اپنے شوہر، والدین، سسرال اور بچوں کی مرضی کی غلام بنی رہے تو کامیاب کہلائے گی۔
اس کے برعکس وہ عورت جو سماج کے اصولوں پر سوال کرتی ہے وہ بری عورت قرار دے دی جاتی ہے جو عورت اپنی مرضی کا اظہار کرنے لگے اس عورت کو باغی قرار دے دیا جاتا ہے۔ جو اپنی ذات اور اپنے دل کی خواہشات کی فکر میں لگ جائے وہ عورت پدر سری کو للکارتی ہوئی دیکھی جاتی ہے۔ اس عورت کو عبرت کا نشانہ بنانا ضروری ہے۔ عورت اپنی پسند کا لباس پہننے جیسی آزادی مانگے تو وہ بے حیائی کا پیکر ہے۔ اگر عورت تعلیم کے بنیادی حق کے لیے آواز اٹھاۓ تو وہ گمراہ ہے۔
بدقسمتی سے اس سوچ میں جو تبدیلی پاکستان کا میڈیا لا سکتا ہے لیکن خود میڈیا پر خواتین کی تصویر کشی اسی تنگ نظری کی عکاس ہے جس بوسیدہ نظر سے یہ معاشرہ عورت کو دیکھتا ہے۔ روائتی سماجی بیانیے میں ظلم اور زیادتی پر خاموش ہو جانے والی، اپنا حق مارے جانے پر صبر کرنے والی عورت کو اچھی عورت گردانا جاتا ہے اور خواتین کےخلاف جرائم پر خود خواتین کو ہی ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے اگر باہر نہ جاتی تو یہ نا ہوتا، گھر میں رہتی تو محفوظ رہتی وغیرہ وغیرہ۔
یہی سوچ میڈیا پر خواتین کے مسائل، کردار اور حیثیت کو زیر بحث لاتے ہوئے کار فرما رہتی ہے۔ چاہے قندیل بلوچ کے قتل کی خبر ہو یا ایان علی کی عدالتی کارروائی کی لمحہ بہ لمحہ کوریج ۔۔۔تیزاب گردی کا شکار کوئی عورت ہو یا زیادتی اور گھریلو تشدد کا شکار خواتین پر بنائی گئی خصوصی رپورٹ۔ عورت مارچ پر ہونے والے میڈیا پروگرامز ہوں یا علی ظفر اور میشا شفیع کا کیس ہو خواتین کے خلاف ازلی تعصب ہر جگہ شعوری لا شعوری طور پر جھلکتا ہے۔ سوشل میڈیا نے اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ می ٹو مہم سوشل میڈیا پر زیر بحث ہو تو عورتوں کے ظاہری حلیے اور لباس پر ایسے سنگین حملے ہوتے ہیں کہ عورتوں کے لیے سائبر سپیس تنگ پڑ جائے۔
آخر میں اب سے اہم کردار ان ٹی وی ڈراموں کا ہے جن کے ناظرین کا 90 فیصد حصہ خواتین پر مشتمل ہے۔ خواتین کے کردار اور گھریلو مسائل کو اجاگر کرتے ٹی وی ڈرامے جن میں تقریبا ہر کہانی میں روتی دھوتی عورت ہی ہیروئین ہوتی ہے جب کہ پراعتماد اور کامیاب عورت باغی اور گھریلو زندگی میں ناکام ہوتی ہے۔ میڈیا کی ہر شکل اور صنف میں خواتین سے جڑے مسائل کو اسی طے شدہ مخصوص اور محدود کردار میں دکھایا جاتاہے جس سے خواتین کی سماجی حیثیت میں کمتری مزید اجاگر ہوتی ہے۔ بظاہر رنگ اور روشنی سے سجا انٹرٹینمنٹ میڈیا بھی خواتین مخالف رحجانات سے آلودہ ہے۔
تاریخی طور پر کس طرح سماج میں خواتین کی حیثیت کا تعین ان کی قابلیت کی بناء پر ہوتا ہے اور نا ہی ان کی صلاحیتوں کو ملحوظ رکھ کر کیا جاتا رہا ہے۔ یہ ہی سوچ ٹی وی ڈرامہ کی کہانی کی بنت میں کار فرما نظر آتی ہے۔ ہماری مجموعی سوچ آج بھی اٹھارہویں صدی کی کسی تاریک گلی میں گم ہے جہاں عورت نے سماج میں کیا، کیسے اور کتنا کردار ادا کرنا ہے ان سب معاملات میں عورت کے پاس انتخاب کی آزادی، چناؤ کی گنجائش نہیں ہے۔ عورت کی حیثیت اور اس کے کردار کا تعین پدر سری کے طے شدہ وہ میعار ہیں جن میں عورت کیا کر سکتی ہے اور کیا نہیں اس فیصلے کا اختیار معاشرے کے طاقتور طبقے (مردوں) نے تاریخی طور پر اپنے ہاتھ میں رکھا۔
بدقسمتی سے خواتین کے کردار پر روایت کی مہر ثبت کرنے والے ڈراموں کی رائٹرز ذیادہ تر خواتین ہی ہیں۔ اور عورت مارچ پر تنقید کرنے والوں میں بھی خواتین کی ایک بڑی تعداد تھی۔ کیا ہمیں خواتین کی معاشرے میں حیثیت کے افق کو وسعت دینے کے لیے قومی کمیشن جیسے اداروں پر تکیہ کر لینا چاہئے یا سماجی بیانیے کو بدلنے کے لیے اپنی ترجیحات کو بدلنا چاہیے؟