پاکستان کے نامور مزاح نگار اور اداکار سفیراللہ صدیقی کی آج 11ویں برسی ہے جنہیں دنیا لہری کے نام سے یاد کرتی ہے۔
’کنگ آف کامیڈی کے نام سے پہچانے جانے والے لہری ایسی فنکارانہ صلاحیتوں کے مالک تھے جو سنجیدگی سے کیا جانے والا انداز مزاح رکھتے تھے اور پھر جو قہقے لگتے تو وہ رک نہیں پاتے۔‘
یہ کہنا تھا ’معروف مزاح نگار لہری کے رفیق نذر حسین کا جو تھیٹر کی دنیا میں لہری صاحب کے شاگرد رہ چکے ہیں۔
سوٹ بوٹ میں رہنا ان کی شخصیت کا خاص پہلو تھا
لہری کی 11ویں برسی کے موقع پر انڈپینڈنٹ اردو سے ان کے شاگرد نزر حسین نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’لہری صاحب ہمیشہ سوٹ بوٹ میں رہتے تھے جتنے بھی تھیٹر کیے سب اپنے انداز میں رہتے ہوئے کیے۔ اچھا دکھنے کا شوق انہیں اتنا تھا کہ راہ چلتے خریداری کرنے لگتے، اگر کوئی جوتا بھی خریدتے تو فورا پہن لیا کرتے تھے۔ بہت سے لوگوں نے اس زمانے میں ان سے ڈریسنگ بھی سیکھی۔ لہری صاحب گھر میں بہت سنجیدہ رہتے بچوں پر ان کا کافی رعب ہوا کرتا تھا۔‘
لہری صاحب کے دھمکی آمیز فون آیا کرتے تھے: نذر حسین
تھیٹر آرٹسٹ نذر حسین نے دوران گفتگو لہری صاحب اور ان کے درمیان ہونے والی گپ شپ کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’ایک بار ایسا ہوا کہ لہری صاحب سے ملے چند دن گزر گئے تو ایسے میں اکثر وہ پیار سے دھمکی آمیز ٹیلی فون کر دیا کرتے تھے اور انداز کچھ اس طرح ہوتا تھا کہ ’بھئی دیکھیے اس صوبے کا گورنر بھی ہمیں جانتا ہے وزیراعلی بھی جانتا ہے تو ایس ایچ او بھی جانتا ہوگا آپ کہیں تو گاڑی بھیج کر بلوا لوں۔‘
یہ وہ جملے ہیں جو لہری صاحب فی البدی ادا کیا کرتے تھے لہجہ تو سنجیدہ ہوتا تھا لیکن مزاح ایسا کہ ہنسی نہ رک پائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نذر حسین نے بتایا کہ ’لہری صاحب بہترین فنکار تھے۔ وہ فلم میں اپنے کردار، کہانی، سیاق وسباق اور منظر نامے کو ملحوظ خاطر رکھ کر یوں جملے بازی کرتے تھے کہ گویا مزاحیہ ادب تخلیق کر رہے ہوں۔ لفظوں کی ادائیگی اور جملوں کی نشست و برخاست اتنی شاندار تھی کہ زیر و زبر سے معنی و مفہوم اور مزاج بدل دیا کرتے تھے۔‘
دیرینہ دوست نذر حسین نے ایک ایک کرکے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ یادوں کی کتاب کے اوراق پلٹے اور بات کو جاری رکھتے ہوئے قہقہ لگایا اور ایک اور قصہ سنایا۔
بقول نزر حسین: ’جب ہم لہری صاحب کے گھر پہنچتے تو بلند آواز میں کہتے ارے بھئی سنیے آگئے ہیں یہ شربت پینے پلا دیجیے۔‘
ذیابیطس کی شدت کی وجہ سے زندگی کے آخری دنوں میں ان کے دونوں گھٹنے کاٹ دیے گئے تھے، نذر حسین بتاتے ہیں کہ جب عمر شریف کے ساتھ ان کی عیادت کے لیے ہسپتال پہنچے تو اتنی دردناک حالت میں بھی ان کا طنز و مزاح کا انداز نہ ڈگمگایا۔
جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئے تو یکدم فقرہ ادا کیا کہ ’اللہ کا کتنا شکر ہے کہ ٹانگ کٹ گئے ورنہ آپ کے لیے کھڑا ہونا پڑتا، تمام طبی پیچدگیوں کے باوجود لہری صاحب کی زندہ دلی برقرار رہی۔‘
وہ اپنی نوعیت کے الگ انسان تھے: بشریٰ انصاری
مشہور پاکستانی اداکارہ بشریٰ انصاری نے لہری کی برسی کے موقع پر انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’خوش قسمتی سے عظیم لہری کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، لیکن ان کی جملے بازی کمال کی ہوا کرتی تھی۔ مختصر سے جملے میں ایسی ایسی بات کہہ دیا کرتے تھے کہ مزاح کی دنیا میں ان جیسا انداز کسی کا نہ تھا۔‘
بقول بشریٰ انصاری: ’اپنے برجستہ جملوں اور بہترین مزاح کے باعث لہری کو فلم انڈسٹری میں ایک خاص مقام حاصل تھا جو فلموں کی کامیابی کی ضمانت تھے، اُن جیسا فنکار صدیوں میں پیدا ہوتا ہے، وہ ہمیشہ پرستاروں کے دلوں میں راج کرتے رہیں گے۔‘
لہری کے فنی سفر پر ایک نظر
لہری کا اصل نام سفیراللہ صدیقی تھا لیکن فلمی دنیا میں انہوں نے لہری کے نام سے شہرت حاصل کی۔ دو جنوری 1929 میں پیدا ہوئے، اپنے فلمی سفر کا آغاز 50 کی دہائی میں بلیک اینڈ وائٹ فلموں سے کیا۔
ان کا فلمی سفر 30 سال پر محیط ہے۔ صدارتی ایوارڈ یافتہ مزاحیہ اداکار لہری کو مداحوں سے بچھڑے 11 برس بیت گئے ہیں اور آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔
انہوں نے 220 سے زائد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے جن میں چند فلمیں پنجابی جبکہ باقی تمام تر اردو میں تھیں۔ مشہور فلموں میں صائقہ، انجمن، کنیز، سہیلی، انہونی، دل میرا دھڑکن تیری، شرافت، انوکھی اور دیگر شامل ہیں۔
جب فلم انڈسٹری کا حصہ بنے تو بہترین کامیڈین کے 11 ایوارڈ اپنے نام کیے۔ یہ لہری صاحب کا ایک منفرد ریکارڈ ہے جسے کوئی دوسرا توڑ نہیں سکا۔ جن فلموں کے لیے انہیں ایوارڈ دیے گئے ان میں دامن، پیغام، کنیز، میں وہ نہیں، صاعقہ، نئی دلہن، انجمن، دل لگی، آج اور کل، نیا انداز، صائمہ اور بیوی ہو تو ایسی شامل ہیں۔