چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے دو فروری 2022 کو سپریم کورٹ کے اعلیٰ ترین عہدے کا حلف اٹھایا اور اس ماہ کی 16 تاریخ، یعنی ہفتے، کو عہدے سے سبکدوش ہو رہے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ایک وجہ شہرت معروف تین رکنی بینچ بنانا ہے۔ وہ بینچ جس نے ہر سیاسی کیس سنا اور اسی وجہ سے مختلف سیاسی جماعتوں کو اس بینچ پر شدید تخفظات رہے۔ چاہے ججز کی آڈیو لیک کا معاملہ ہو یا اہل خانہ کی آڈیو لیک، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کسی سوشل میڈیا مہم پر کان نہیں دھرے۔
فروری 2022 میں چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد مارچ میں عدم اعتماد، پنجاب اور خیبر پختونخوا انتخابات کا معاملہ، منحرف اراکین کا معاملہ، 63 اے کی تشریح اور حکومت تبدیلی کے باعث ’آدھی رات کو‘ عدالت کھولنے جیسے معاملات ان کے منتظر تھے۔
سابق سپیکر قاسم سوری کی رولنگ کالعدم قرار دے کر عدم اعتماد ووٹنگ اور اس کے نتیجے میں سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت ختم ہونے اور پی ڈی ایم حکومت آنے کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال تحریک انصاف سوشل میڈیا ٹرولز کے نشانے پہ رہے۔
لیکن بعد ازاں 63 اے کی تشریح اور سابق وزیراعظم عمران خان کو کمرہ عدالت میں دیکھ کر ’گڈ ٹو سی یو‘ کہنے پر وہ دیگر جماعتوں کے نشانے پر آ گئے۔
عدالت عظمیٰ کی کارروائیوں کی کوریج کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں ججز کے درمیان ’تقسیم‘ واضح نظر آئی۔
سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دور میں جس میں ازخود نوٹسز کی بھرمار تھی، فل کورٹ کے فیصلے میں خال ہی اختلافی نوٹ ہوتے تھے۔ لیکن جسٹس عمر عطا بندیال کے تین رکنی بینچ کے علاوہ دیگر ججز سے سوچ کا اختلاف ہی رہا اور وہ اختلاف لارجر بینچز اور دیگر ججوں کے تواتر سے آنے والے اختلافی نوٹس میں واضح تھا۔
اس کے علاوہ ججز تقرری کے معاملے پر ہائی کورٹ کے جونیئیر ججز کو سینیئر ججوں پر فوقیت، ان معاملات پر نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس عمر عطا بندیال میں اختلافات رہے۔
تبھی اپنے الوداعی خطاب میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’میرا نکتہ نظر قاضی فائز عیسی سے مختلف ہے لیکن وہ ایک قابل تعریف شخصیت ہیں۔ اور میں ان کا احترام کرتا ہوں۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے فیصلے:
آرٹیکل 63 اے
گذشتہ برس سیاسی گہما گہمی کی وجہ سے سپریم کورٹ میں سیاسی نوعیت کے مقدمات سنے گئے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلے میں کہا ہے کہ منحرف رکن اسمبلی کا پارٹی پالیسی کے خلاف دیا گیا ووٹ شمار نہیں ہوگا جبکہ تاحیات نااہلی یا نااہلی کی مدت کا تعین پارلیمان کرے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی اور فیصلہ دو کے مقابلے میں تین کی برتری سے سنایا گیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر نے کہا کہ منحرف رکن کا دیا گیا ووٹ شمار نہ کیا جائے، جبکہ جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔
پنجاب، کے پی انتخابات ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ
سپریم کورٹ نے رواں برس چار اپریل کو پنجاب اور خیبرپختونخوا (کے پی) میں الیکشن کے التوا سے متعلق کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کا آٹھ اکتوبر کو الیکشن کرانے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور 14 مئی کو الیکشن کرانے کا حکم دیا۔
سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ پنجاب میں انتخابات شفاف، غیرجانبدارانہ اور قانون کے مطابق کرائے جائیں، وفاقی حکومت 10 اپریل تک الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپےکا فنڈ جاری کرے، الیکشن کمیشن 11 اپریل کو سپریم کورٹ میں فنڈ مہیا کرنےکی رپورٹ جمع کرائے، الیکشن کمیشن فنڈ کی رپورٹ بینچ ممبران کو چیمبر میں جمع کرائے، فنڈ نہ ملنےکی صورت میں سپریم کورٹ متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کرے گا۔
پنجاب، کے پی انتخابات چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا ایسا ازخود نوٹس تھا جو متنازع ہو گیا۔ نو رکنی بینچ سے معاملہ پانچ رکنی بینچ تک آگیا۔
پنجاب، خیبرپختونخوا انتخابات ازخود نوٹس کیس ٹائم لائن
پنجاب، خیبرپختونخوا (کے پی) انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس نو رکنی لارجر بینچ نے سماعت شروع کی تھی لیکن چار میں سے دو ججوں نے پہلی سماعت کے بعد خود کو کیس سے الگ کر لیا جبکہ دو کو چیف جسٹس نے ان کے اختلافی نوٹ کے بعد نئے بینچ میں شامل نہیں کیا۔
اس کے بعد پانچ رکنی بینچ موجود رہا جس نے مزید تین سماعتیں کیں۔
22 مارچ کو چیف چسٹس آف پاکستان نے پنجاب اور کے پی انتخابات تاخیر پر ازخود نوٹس لیا تھا اور 23 فروری کو پہلی سماعت ہوئی تھی۔
ازخود نوٹس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سوالات اٹھائے کہ اسمبلی تحلیل کے بعد انتخابات کی تاریخ دینا کس کی آئینی ذمہ داری ہے؟ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے وفاق اور صوبوں کی کیا آئینی ذمہ داری ہے؟ یہ آئینی ذمہ داری ادا کیسے ہو گی؟
27 فروری کو تحریری حکم نامہ جاری ہونے اور بینچ تحلیل ہونے کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال کمرہ عدالت میں آ گئے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت شروع کی۔ اس وقت چیف جسٹس نے کہا کہ، ’بینچ کے چار معزز ممبرز نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا ہے، لیکن عدالت کا باقی بینچ مقدمہ سنتا رہے گا۔‘
دو اضافی نوٹ لکھنے والے جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل بینچ میں موجود رہے جبکہ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحیی آفریدی نے مزید بینچ کا حصہ رہنے کا فیصلہ چیف جسٹس پر چھوڑا تھا۔
اس کے علاوہ دو جج جن پر ن لیگ کو تخفظات تھے، جس میں جسٹس اعجاز الااحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی کا نام تھا، انہوں نے تنقید کی وجہ سے خود کو بینچ سے الگ کر لیا تھا۔
28 فروری کو کیس مکمل ہوا اور یکم مارچ کو اس کا فیصلہ جاری کیا گیا جو تین دو کی اکثریت سے آیا تھا۔ بینچ میں شامل چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر اور جسٹس محمد علی مظہر ایک طرف جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔
سپیکر قاسم سوری رولنگ کیس کا فیصلہ
گذشتہ برس سات اپریل کو سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے والے قومی اسمبلی کے سپیکر کے تین اپریل کو دیے گئے متنازع فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔
ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی تین اپریل کی رولنگ اور صدر مملکت کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے معاملے پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ دیا کہ تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی تین اپریل کی رولنگ اور وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر کی جانب سے قومی اسمبلی کو تحلیل کرنا ’آئین سے متصادم تھا۔‘
جس کے بعد سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی بحال کر دی۔ سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ سپیکر فوری طور پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلائیں، قومی اسمبلی اجلاس ہر صورت نو اپریل صبح 10:30 بجے سے پہلے بلایا جائے۔
14 جولائی کو اس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا۔ جس میں کہا گیا کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو مسترد کر کے قاسم سوری نے بادی النظر میں اپنی آئینی ذمہ داری کی خلاف ورزی کی۔
انہوں نے کہا کہ تین اپریل کا فیصلہ آرٹیکل 69 (1) کے تحت پارلیمنٹ کی داخلی کارروائی کے تحفظ کے لیے کوالیفائی کرنے میں ناکام رہا، کیونکہ یہ اس کے بجائے قومی اسمبلی میں ووٹ کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک یکطرفہ فیصلہ تھا۔
پنجاب میں وزیر اعلی انتخاب کا معاملہ
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل بینچ نے یکم جولائی 2022 کو لاہور ہائی کورٹ کو پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت سے متعلق درخواست پر فیصلہ کیا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب 22 جولائی کو ہو گا، جبکہ حمزہ شہباز اس وقت تک قائم مقام وزیر اعلیٰ رہیں گے۔
پنجاب اسمبلی سپیکر رولنگ کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ
سپریم کورٹ نے 26 جولائی 2022 ڈپٹی سپیکر رولنگ کیس میں پرویز الٰہی کی درخواست منظور کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر دوست مزاری کی رولنگ کالعدم قرار دے دی۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کا کوئی قانونی جواز نہیں، پنجاب کابینہ بھی کالعدم قرار دی جاتی ہے، حمزہ شہباز اور ان کی کابینہ فوری طور پر عہدہ چھوڑیں۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے پرویز الٰہی کی درخواست پر سماعت کی، دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے اسی روز فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
عدالتی اصلاحات/ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس
رواں برس 13 اپریل کو عدالت عظمی نے ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل بل 2023‘ کے خلاف درخواستوں پر آٹھ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا ہے جس میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر تاحکم ثانی عمل درآمد روک دیا گیا۔
سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ’ایکٹ بادی الںظر میں عدلیہ کی آزادی اور اندرونی معاملات میں مداخلت ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر تاحکم ثانی کسی بھی طریقے سے عمل درآمد نہیں ہو گا۔‘
تحریری فیصلے کے مطابق ’صدر مملکت ایکٹ پر دستخط کریں یا نہ کریں، دونوں صورتوں میں یہ تاحکم ثانی نافذ العمل نہیں ہو گا۔‘
چیف جسٹس کے ازخود نوٹسز
چیف جسٹس نے اپنے دور میں تین ازخود نوٹسز لیے، جن میں سپیکر قاسم سوری رولنگ ، پنجاب، کے پی انتخابات میں تاخیر پر ازخود نوٹس، ارشد شریف قتل کیس شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جن کیسز کے فیصلے نہ ہو سکے؟
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیس، ارشد شریف قتل کیس کی سماعتیں کیں لیکن کیسز کسی فیصلے پر نہ پہنچ سکے اور نہ آخری ہفتے میں ان کیسز کو سماعت کے لیے مقرر کیا گیا۔ ارشد شریف کی اہلیہ نے چیف جسٹس سے اس معاملے پر شکوہ بھی کیا۔
اس کے علاوہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح پر نظرثانی درخواستوں پر بھی اب ازسرنو بینچ بننے کا امکان ہے۔
عدالتی ماہرین کی چیف جسٹس بندیال سے متعلق رائے
سینیئر عدالتی صحافی ناصر اقبال نے کہا کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ چیف جسٹس بندیال اپنے ساتھ بہت اچھی یادیں لے کر جا رہے ہیں۔
’ان کے زمانے میں سپریم کورٹ میں تقسیم شروع ہوئی، ججز کی گروہ بندی ہوئی، لیکن پھر بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ تاریخ کے سب سے متنازع چیف جسٹس تھے۔ ثاقب نثار سے تو وہ قدرے بہتر ہی رہے ہیں۔ ثاقب نثار تو ہائپر ایکٹیو ہو گئے تھے۔ لیکن جسٹس بندیال نے اتنے زیادہ از خود نوٹس لے کر حکومتی معاملات پر مداخلت نہیں کی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’عمر عطا بندیال نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا فیصلہ کرتے ہوئے اس میں ترمیم ہی کر دی۔ اس سے ایسا مطلب نکالا جس کی آئین میں گنجائش نہیں تھی۔ 90 دن میں انتخابات کا معاملہ بھی تھا لیکن اگر دیکھا جائے تو چیف جسٹس بندیال میں برداشت بہت تھی۔ ہمیشہ ہنس کر بات کو ٹالا کبھی وکلا کے ساتھ عدالت میں تلخ کلامی نہیں ہوئی۔ لیکن عدالت میں ججز اور بینچ کی گروہ بندی سے منفی تاثر ابھرا ہے۔‘
عدالتی امور کے صحافی حسنات ملک نے کہا کہ ’چیف جسٹس عمر عطا بندیال متنازع تو رہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہددی اور ثاقب نثار نے زیادہ متنازع کام کیے ہیں۔‘
حسنات ملک نے مزید کہا کہ ’چیف جسٹس بندیال نے ججوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا نہیں کی، ادارے کے اندر تقسیم رہی، سینیئر ججوں کو بینچ میں ساتھ نہ بٹھانا، فل کورٹ نہ بنانا، ہائی پروفائل کیسز میں صرف اپنا ہم خیال بینچ بنانا، یہ سب کر کے انہوں اپنے ساتھ ساتھ ادارے کا بھی نقصان کیا ہے۔ ججوں کی تعیناتی کے معاملے پر فیورٹ ازم رہا، جونئیر ہم خیال ججوں کی تعیناتی کی گئی جس پر اٹارنی جنرل اور دیگر ججوں کے رائے مخالف تھی۔
انہوں نے پانچ جج تعینات کرنے تھے مگر چار کر سکے کیونکہ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں رائے مختلف تھی۔‘
حسنات ملک نے یہ بھی کہا کہ 'جسٹس عمر عطا بندیال میں برداشت کمال ہے ہر قسم کی مخالف کیمپین برداشت کی، کبھی کسی وکیل سے بدتمیزی نہیں کی۔ یہ ان کو کریڈٹ جاتا ہے اس کے علاوہ انہوں نے حکومت کے انتظامی امور میں مداخلت نہیں کی جیسے افتخار محمد چوہدری کرتے تھے۔‘
سینیئر سپریم کورٹ وکیل شاہ خاور نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمر عطا بندیال بحثیت انسان شائستہ اور تمیزدار انسان ہیں لیکن ان کے دور میں بہت سے ایسے آئینی معاملات سامنے آئے جن کا سیاست کے ساتھ تعلق تھا۔
’سیاسی معاملات کے کیسز میں جب سپریم کورٹ فیصلہ دیتی ہے تو جس جماعت کے حق میں ہوتا ہے وہ بہت تعریف کرتے ہیں لیکن جس کے مخالف فیصلہ ہوتا ہے وہ پھر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ جیسے قاسم سوری کی رولنگ کو کالعدم قرار دیا تو پی ٹی آئی کے کارکنان نے ان کو تضحیک کا نشانہ بنایا تھا۔‘
شاہ خاور نے کہا کہ جسٹس عمر عطا بندیال کو ہر سیاسی کیس میں مخصوص ججوں کا بینچ نہیں بنانا چاہیے تھا بلکہ فل کورٹ کی جانب جانا چاہیے تھا تاکہ اجتماعی سوچ سامنے آتی۔ اس لیے تاریخ میں ان کو بھی ’متنازع چیف جسٹس‘ سمجھا جائے گا۔
سپریم کورٹ کے وکیل احسن بھون نے کہا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں ججوں اور سپریم کورٹ کے ادارے میں جو تقسیم ہوئی ہے وہ پہلے کسی چیف جسٹس کے دور میں نہیں رہی۔ ’ثاقب نثار بہت متنازع تھے لیکن ان کے دور میں ایسی تقسیم نہیں تھی۔ سیاسی تقسیم کا عدلیہ پر اثر ہوا ہے۔‘