آذربائیجان اور آرمینیائی فوج کے درمیان کاراباخ میں جنگ بندی کا معاہدہ

نگورنوقراباخ کو بین الاقوامی سطح پر آذربائیجان کا علاقہ تسلیم کیا جاتا ہے لیکن اس کا ایک حصہ علیحدگی پسند آرمینیائی حکام کے زیرانتظام ہے۔

آذربائیجان کی وزارت دفاع نے بدھ اس بات کی تصدیق کی کہ اس نے نگورنو کاراباخ کے پہاڑی نسل کے آرمینیائی آبادی والے علاقے میں آرمینیائی افواج کے ساتھ جنگ ​​بندی کا معاہدہ کیا ہے۔

برطانوی اور فرانسیسی خبر رساں اداروں کے مطابق آذربائیجان کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ کاراباخ میں آرمینیائی افواج نے ’اپنے ہتھیار ڈالنے، جنگی پوزیشنوں اور فوجی چوکیوں کو ترک کرنے اور مکمل طور پر غیر مسلح ہونے‘ پر اتفاق کیا ہے اور تمام ہتھیار اور بھاری سامان آذربائیجان کی فوج کے حوالے کیا جا رہا ہے۔

اس سے قبل آذربائیجان نے آرمینیا کے زیرقبضہ نگورنو کاراباخ کے علاقے میں نئی فوجی کارروائی شروع کرتے ہوئے توپ خانے سے لیس فوجی دستے بھیجے تھے جس سے اس کے ہمسایہ ملک آرمینیا کے ساتھ ایک نئی جنگ کا خطرہ بڑھ گیا تھا۔

امریکہ نے آذربائیجان کی اس تازہ فوجی کارروائی پر تنقید کی تھی۔

نگورنو کاراباخ کو بین الاقوامی سطح پر آذربائیجان کا علاقہ تسلیم کیا جاتا ہے لیکن اس کا ایک حصہ علیحدگی پسند آرمینیائی حکام کے زیرانتظام ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ ان کا آبائی وطن ہے۔

اس متنازع علاقے میں1991 میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے دو جنگیں لڑی جاچکی ہیں۔ 2020 میں اس علاقے پر دونوں ملکوں کے درمیان آخری جنگ ہوئی تھی۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق آذربائیجان کی جانب سے قراباخ کے دارالحکومت سٹیپاناکرٹ میں منگل کو فضائی حملے کا انتباہ جاری کیا گیا تھا۔ اس دوران میں سوشل میڈیا کی فوٹیج میں زور دار اور باربار گولہ باری کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ آذربائیجان میں سٹیپناکرٹ خان ’کینڈی‘ کہلاتا ہے۔

امریکی وزیرخارجہ اینٹنی بلنکن نے منگل کو ایک بیان میں نگورنو کاراباخ میں آذربائیجان کی فوجی کارروائیوں پر تنقید کی ہے اور باکو سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر فوجی طاقت کا استعمال بند کرے۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ کو نگورنو کاراباخ میں آذربائیجان کی فوجی کارروائیوں پر گہری تشویش لاحق ہے اور وہ آذربائیجان سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ فوری طور پر یہ کارروائیاں بند کرے۔

انہوں نے کہا کہ ان اقدامات سے اس علاقے میں پہلے سے ہی سنگین انسانی صورت حال خراب ہو رہی ہے اور امن کے امکانات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا: ’جیسا کہ ہم پہلے ہی آذربائیجان پر واضح کر چکے ہیں، تنازعات کو حل کرنے کے لیے طاقت کا استعمال ناقابل قبول ہے اور خطے میں منصفانہ اور باوقار امن کے لیے حالات پیدا کرنے کی کوششوں کے منافی ہے۔‘

آذربائیجان کے صدر الہام علیوف کے خارجہ پالیسی کے مشیر حکمت حاجیئف نے کہا کہ باکو نے علاقے میں بری افواج تعینات کی ہیں۔ انہوں نے کئی مقامات پر آرمینیائی لائنوں کو توڑا ہے اور اپنے کچھ اہم مقاصد حاصل کیے ہیں۔

باکو کی وزارت دفاع کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ آذربائیجان کی افواج نے 60 سے زیادہ فوجی چوکیوں پر قبضہ کر لیا ہے اور دیگر فوجی سازوسامان کے ساتھ 20 فوجی گاڑیوں کو تباہ کر دیا ہے۔

دوسری جانب قراباخ کے علیحدگی پسند حکام کا کہنا ہے کہ باکو کی فوجی کارروائی میں دو عام شہریوں سمیت 25 افراد جان سے چلے گئے اور 80 زخمی ہوئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ کچھ دیہات کے رہائشیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔

قراباخ میں یہ لڑائی جنوبی قفقاز کے خطے میں جغرافیائی سیاسی توازن کو بھی تبدیل کر سکتی ہے، جو تیل اور گیس کی پائپ لائنوں سے بھرا پڑا ہے اور جہاں روس، یوکرین میں اپنی جنگ سے الجھا ہوا ہے۔

آذربائیجان کے حاجیئف نے کہا کہ فوج فوجی اہداف کے خلاف گائیڈڈ گولہ بارود کا استعمال کر رہی ہے تاکہ شہریوں کو جانی اور مالی نقصان سے بچایا جا سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’آذربائیجان کا ارادہ دشمنی اور محاذ آرائی کے ایک باب کو بند کرنا ہے۔ اب بہت ہو گیا۔ ہم اپنی سرزمین پر ایسی مسلح افواج اور ایک ایسا ڈھانچہ برداشت نہیں کر سکتے جو روزانہ کی بنیاد پر آذربائیجان کی سلامتی اور خودمختاری کو چیلنج کرے۔‘

آرمینیا نے قراباخ کے عوام کے خلاف باکو کی ’مکمل جارحیت‘ کی مذمت کی اور آذربائیجان پر قصبوں اور دیہات پر گولہ باری کا الزام عائد کیا۔

آرمینیا کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ آذربائیجان نے کھلے عام اس جارحیت کی ذمے داری قبول کی ہے۔

روس نے دونوں فریقوں سے لڑائی بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

روس نے 2020 میں لڑائی کے بعد ایک نازک جنگ بندی کی ثالثی کی تھی۔ اس لڑائی میں آذربائیجان نے قراباخ اور اس کے آس پاس کی زمین کے ایک حصے پر دوبارہ قبضہ کر لیا تھا، جسے اس نے 1990 کی دہائی میں ایک سابق مسلح تنازع میں کھو دیا تھا۔

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے منگل کو کہا کہ روس آذربائیجان اور آرمینیا دونوں کے ساتھ رابطے میں ہے اور اس نے تنازعے کے حل کے لیے مذاکرات پر زور دیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا