پاکستان کا کہنا ہے کہ کینیڈا میں جو کچھ ہوا وہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے اور ’را کا نیٹ ورک جنوبی ایشیا میں قتل اور اغوا کی وارداتوں میں ملوث تھا۔‘
پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے بدھ کو اسلام آباد میں دفتر خارجہ میں ہفتہ وار بریفنگ کے دوران بتایا کہ ’ماورائے عدالت قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کی خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا نیٹ ورک عالمی سطح پر پھیل گیا ہے۔
دفتر خارجہ کی ترجمان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان انڈیا کی ریاستی دہشت گردی کا شکار رہا ہے اور ہم نے گذشتہ سال دسمبر میں لاہور میں جون 2021 میں ہونے والے دہشت گرد حملے میں بھارت کے ملوث ہونے کے بارے میں ایک تفصیلی ڈوزیئر جاری کیا تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ 2016 میں ایک حاضر سروس بھارتی افسر کلبھوشن یادیو کو پاکستان میں گرفتار کیا گیا تھا اور انہوں نے پاکستان میں دہشت گردی کا اعتراف کیا تھا۔
کینیڈا میں خالصتان تحریک سے وابستہ سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے بارے میں بیان جاری کرتے ہوئے پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان کا کہنا تھا کہ ’کینیڈا میں جو کچھ ہوا وہ بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہ لاپرواہی اور غیر ذمہ دارانہ رویے کو ظاہر کرتا ہے جو ایک پارٹنر کے طور پر ان کی [بھارت] کی ساکھ اور بھروسے پر سوال اٹھاتا ہے۔‘
گذشتہ روز انڈیا اور کینیڈا کے درمیان ایک کینیڈین سکھ رہنما کے قتل کے معاملے پر کشیدگی میں اضافہ ہوگیا تھا اور کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی جانب سے اس قتل میں انڈین حکومت کے ملوث ہونے کے الزام کو نئی دہلی نے ’مضحکہ خیز‘ قرار دے کر اس کی تردید کر دی تھی۔
اس کے بعد دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے اہم سفارتی اہلکاروں کو بھی ملک بدر کردیا تھا۔
کینیڈا نے پیر کو انڈین حکومت پر رواں برس جون میں وینکوور کے قریب ایک کینیڈین سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے دارالحکومت اوٹاوا میں تعینات نئی دہلی کے انٹیلی جنس چیف کو ملک بدر کر دیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے پیر کی دوپہر پارلیمانی اپوزیشن کے ہنگامی اجلاس کو بتایا تھا کہ ان کی حکومت کے پاس رواں برس جون میں جلاوطن سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں انڈین ایجنٹوں کے ملوث ہونے کے ’معتبر الزامات‘ ہیں۔
جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ ’کینیڈا کی سرزمین پر کسی کینیڈین شہری کے قتل میں کسی بھی غیر ملکی حکومت کا ملوث ہونا ہماری خودمختاری کی ناقابل قبول خلاف ورزی ہے۔‘
کینیڈا کی وزیر خارجہ میلانیا جولی نے کہا کہ ٹروڈو حکومت نے اس معاملے میں فوری ایکشن لیا ہے۔ انہوں نے اہلکار کا نام لیے بغیر کہا: ’آج ہم نے ایک سینیئر انڈین سفارت کار کو کینیڈا سے بے دخل کر دیا ہے۔‘
میلانیا جولی نے مزید کہا کہ بے دخل کیا گیا انڈین شہری کینیڈا میں انڈیا کی غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ (را) کا سربراہ ہے۔
بعدازاں انڈیا نے منگل کو کینیڈا کے ان الزامات کو ’درپردہ محرکات پر مبنی اور مضحکہ خیز‘ کہہ کر رد کر دیا، جن میں کہا گیا تھا کہ ایک کینیڈین سکھ رہنما کے قتل میں انڈین حکومت ملوث ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق انڈیا کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’کینیڈین وزیراعظم کی طرف سے ہمارے وزیر اعظم پر بھی اسی طرح کے الزامات لگائے گئے تھے اور انہیں مکمل طور پر مسترد کر دیا گیا تھا۔‘
ہر دیپ نجر کون تھے؟
کینیڈا اور انڈیا کے درمیان سفارتی عملے کی بے دخلی کے محور شخص ہردیپ سنگھ نجر کو رواں سال جون میں کینیڈا میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا اور ان کے قتل کی تحقیقات اب بھی جاری ہیں۔
18 جون کی شام 8:30 پر 45 سالہ نجر گرو نانک سکھ گردوارے کے باہر ایک گاڑی کے اندر زخمی حالت میں ملے تھے، انہیں کئی گولیاں ماری گئی تھیں۔
کینیڈین ویب سائٹ گلوبل نیوز کے مطابق: ’فروری 1997 میں پلمبر بننے کے لیے انڈیا سے کینیڈا منتقل ہونے والے نجر سکھوں کے لیے ایک علیحدہ وطن یعنی آزاد خالصتان کی تحریک کی ایک اہم شخصیت تھے۔‘
لیکن انڈین حکومت کو وہ خالصتان ٹائیگر فورس (کے ٹی ایف) کے ’ماسٹر مائنڈ / فعال رکن‘ ہونے کے الزام میں مطلوب تھے، جسے بھارتی حکومت ’دہشت گرد گروپ‘ قرار دیتی ہے۔
انڈیا میں 1980 اور 1990 کی دہائی کے اوائل میں سکھ اکثریتی شمالی ریاست پنجاب میں انڈین حکومت اور سکھ علیحدگی پسندوں کے درمیان مسلح تصادم دیکھنے میں آیا تھا۔
شورش کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران نجر کے بھائی کو انڈیا میں پولیس نے گرفتار کر لیا۔ 1995 میں نجر خود بھی گرفتار ہوئے۔