لاہور کا دس ماہ کا ننھا محمد احمد تیزی سے بڑا ہو رہا ہے اور اب تو وہ چلنے کی کوشش بھی کرنے لگا ہے۔ ان کے والدین کو انتظار ہے اس دن کا جب وہ اپنے پیروں پر خود بھاگتا دوڑتا ان کے گھر کی رونق میں مزید اضافہ کرے گا۔
مرغزار کے رہائشی احمد کے والد بلاول نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ دو ماہ قبل ان پر ایسا وقت آیا جب انہیں یوں لگا جیسے ان پر کوئی پہاڑ گر گیا ہو۔ احمد اپنی نانی کے گھر شاد باغ گیا ہوا تھا جہاں ان کی کچھ طبیعت خراب ہوئی اور ان کی والدہ کو محسوس ہوا کہ احمد اپنے بائیں پاؤں پر زور نہیں ڈال رہا۔
والدین بچے کو لے کر قریب ہی محلے کے ایک ڈاکٹر کے پاس چلے گئے۔ ڈاکٹر نے انہیں بچے کو وٹامن ڈی پلانے کا مشورہ دیا مگر احمد کے والدین چونکہ فکر مند تھے اس لیے انہوں نے ڈاکٹر سے اس خدشے کا اظہار کیا کہ کہیں احمد کو پولیو کا خطرہ تو نہیں۔
ڈاکٹر نے ان کی تسلی کے لیے انہیں پولیو وائرس ٹیسٹ کا مشورہ دیا اور والدین کی رضا مندی سے محکمہ صحت پنجاب سے رابطہ کیا۔
بلاول کہتے ہیں کہ محکمہ صحت پنجاب کے نمائندے فوراً ان کے گھر پہنچ گئے اور بچے کے پاخانے کا ٹیسٹ لے کر قومی ادارہ صحت کی پولیو ٹیسٹنگ لیبارٹری بھجوا دیا۔ بلاول نے بتایا کہ اس کے بعد انسداد پولیو ٹیم کے کئی ڈاکٹر ان کے گھر آئے بچے کے ہر طرح کے ٹیسٹ کیے پانی وغیرہ کے نمونے بھی لیے یہاں تک کہ کچھ چینی ڈاکٹر بھی ان کے گھر آئے۔
احمد کی رپورٹ 20 دن کے بعد آئی جس میں اس کے اند پولیو وائرس ٹائپ ون کی تصدیق کی گئی تھی۔ مگر بلاول رپورٹ دیکھ کر پریشان نہیں ہوئے کیونکہ احمد کا وہ پاؤں جس پر انہیں شک تھا کہ خدانخواستہ معذور ہو جائے گا، وہ ٹیسٹ کروانے کے 12 روز کے اندر واپس معمول کی طرح کام کرنے لگا تھا اور اس میں کوئی کمزوری یا معذوری کے آثار نہیں تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بلاول نے بتایا کہ احمد کی پیدائش کے وقت سے تمام حفاظتی ٹیکے بھی لگوائے اور پولیو سے بچاؤ کے ٹیکے اور تمام مہمات میں قطرے بھی پابندی سے پلاتے رہے ہیں اور آئندہ بھی وہ یہی کریں گے۔
انڈپنڈینٹ اردو نے احمد کے کیس کی تصدیق کے لیے انچارج پولیو پروگرام پنجاب سلمان غنی سے رابطہ کیا تو انہوں نے بھی محمد احمد میں پولیو وائرس ٹائپ ون کی تصدیق کی۔
سلمان غنی نے بتایا کہ پولیو وائرس کا کسی کے جسم میں اس کی بڑی آنت میں موجود ہونا ایک بات ہے لیکن اس وائرس کا جسم کو معذور کر دینا دوسری بات ہے۔ ایک بچہ تب معذور ہوتا ہے جب دماغ کی کوئی نس کام نہ کر رہی ہو اور خون کی روانی رک جائے جیسے بایاں پاؤں یا بازو معذور ہو جاتا ہے۔
’اگر ہمیں شک ہو کہ کہیں یہ معذوری پولیو کی وجہ سے تو نہیں تو اس کے لیے ہم فوری طور پر متاثرہ بچے کے پاخانے کا نمونہ لے کر قومی ادارہ صحت کی پولیو ٹیسٹنگ لیبارٹری میں بھیج دیتے ہیں۔ ٹیسٹ کے بعد کا نتیجہ یہ کہتا ہے کہ اس کے جسم کے اندر پولیو وائرس تھا یا نہیں۔‘
سلماں غنی کا کہنا ہے کہ ہوتا یوں ہے کہ وائرس بچے کے جسم میں تو چلا جاتا ہے لیکن اگر بچہ باقائدہ طور پر پولیو سے بچاؤ کے قطرے لے رہا ہے اور اسے ٹیکے بھی لگے ہیں، جس طرح احمد کے کیس میں ہوا اس کا ٹیکوں اور قطروں کا ریکارڈ موجود ہے اس کے والدین باقائدہ طور پر اس کی ویکسینیثن کروا رہے تھے بلکہ احمد ہر مہم میں بھی پولیو کے قطرے لے رہا تھا جس کی وجہ سے وہ بچ گیا۔ وائرس بے شک اس کے جسم میں موجود تھا مگر اس نے صرف ایک فیصد بچے پر اثر کیا جس کی وجہ سے وقتی طور پر بچے کے پاؤں پر اثر ہوا مگر وہ جلد ٹھیک ہو گیا اور بچہ مستقل معذوری سے بچ گیا۔‘
کیا یہ ممکن ہے کہ پولیو وائرس کے باوجود بچہ اپاہج ہونے سے بچ جائے؟
اسی حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے چئیرمین ڈاکٹر جاوید اکرم سے رابطہ کیا۔
ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا تھا کہ اگر بچے نے پولیو سے بچاؤ کے قطرے پیدا ہونے سے لے کر اب تک پیئے ہوئے تھے تو ایسا ممکن ہے۔ ڈاکٹر جاوید اکرم نے دعویٰ کیا کہ طب کی تاریخ میں احمد جیسے کیسز کی تحریری مثالیں موجود ہیں۔
ان کے مطابق جنہیں پولیو ہو جاتا ہے وہ بھی سو فیصد اپاہج نہیں ہو جاتے کیونکہ جسم کی اپنی قوت مدافعت بھی اس وائرس کے خلاف کام کرتی ہے اور وقتی معذوری سے مکمل صحت یابی ہو سکتی ہے۔ وائرس کتنا خطرناک ہے، وائرس کی ٹائپ، ویکسینیشن کی کوالٹی اور جسم کی اپنی قوت مدافعت پر منحصر کرتا ہے کہ پولیو وائرس کا شکار کس طرح وائرس کے خلاف لڑتا ہے اور مکمل صحت یاب ہوتا ہے۔
’اگر احمد کے والدین نے بچے کو قطرے نہ پلائے ہوتے تو بچے کے مکمل اپاہج ہونے کا خدشہ تھا۔ ہو سکتا ہے کہ بچے کی قوت مدافعت اتنی اچھی نہ ہو یا اس کی ویکسینیشن کسی وقت غیر معیاری تھی یا اس کی کولڈ چین برقرار نہ رہی ہو جس کی وجہ سے پولیو وائرس نے اس پر حملہ تو کیا مگر اس پر اثر نہیں کر سکا اور وہ مستقل معذوری سے بچ گیا۔‘
بچوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹر نعیم ظفر نے اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیو وائرس کی جسم میں موجودگی کی تصدیق کے بعد جسم کے کسی حصہ میں ہونے والی معذوری سے مکمل صحت یاب ہو جانا ممکن ہے۔
ڈاکٹر نعیم کے مطابق مسئلہ یہ ہے کہ پولیو سے ملتی جلتی اتنی زیادہ بیماریاں ہیں کہ جب تک وائرس کی تصدیق قومی ادارہ صحت کی پولیو ٹیسٹ لیبارٹری نہ کر لے ہم اس کو پولیو نہیں مانتے۔ پولیو وائرس کی تصدیق کے بعد اس سے مکمل طور پر بحالی ہو جانا بالکل ممکن۔
ان کے خیال میں 90 فیصد کیسز میں پولیو کے شکار بچے کو فالج نہیں ہوتا اور جن بچوں کے جسم کے کسی حصہ پر پولیو وائرس کی وجہ سے فالج کا اٹیک ہو تو وہ اپنا کچھ نہ کچھ اثر چھوڑ جاتا ہے۔ پولیو سے صحت یابی ہو سکتی ہے مگر یہ صحت یابی زیادہ تر پولیو سے ملتے جلتے وائرسز سے ہوتی ہے پولیو سے مکمل صحت یابی کم کیسز میں سامنے آتی ہے۔
محمد احمد کے والد بلاول کہتے ہیں کہ یہ تکلیف وہ خود ہی جانتے ہیں جب محمد کے ٹیسٹ کے لیے ٹیمیں گھر آئیں اور محمد میں پولیو وائرس کی موجودگی کا خطرہ نظر آیا۔ ایک والد ہونے کے ناطے میری سب والدین سے درخواست ہے کہ وہ پولیو سے بچاؤ کے لیے اپنے بچوں کو قطرے ضرور پلائیں تاکہ بچے صحت مند اور بھاگتے دوڑتے رہیں۔
انسداد پولیو پروگرام پنجاب کے مطابق شہر لاہوراور چند دیگر شہروں سرگودھا، میانوالی اور جہلم کی 46 یونین کونسلز کو مہم میں شامل کیا گیا ہے جن میں انسداد پولیو مہم 26 سے 29 اگست تک جاری رہے گی، جس دوران 19 لاکھ 72 ہزار سے زائد بچوں کو قطرے پلائے جائیں گے۔ لاہور شہر سے گذشتہ چند ماہ میں چار بچوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی جبکہ جہلم میں بھی ایک بچے میں پولیو وائرس پایا گیا ہے جس کی وجہ سے جہلم کی تحصیل پنڈدادن خان اور سرگودھا کی تحصیل بھیرہ کی 31 یونین کونسلوں میں بھی مہم کا انعقاد کیا گیا ہے۔