پاکستان کی نگران حکومت نے سرکاری ملکیتی اداروں (ایس او ایز) کی نجکاری کے لیے ابتدائی پالیسی کا مسودہ تیار کیا ہے اور نجکاری کے اقدامات یا تبدیلی کے لیے 10 کمپنیوں کی فہرست بنا لی ہے تاہم اس کی منظوری نہیں دی گئی ہے، حتمی منظوری نظر ثانی کے بعد دی جائے گی۔
نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر نے جمعرات کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ 2020 تک، ایس او ایز کے کل نقصانات 500 ارب روپے تک پہنچ چکے تھے۔
وزیر خزانہ کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ڈی) کی جانب سے موجودہ تین ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کے تحت ایس او ایز میں نقصانات، جن پر حکومتی مالیات کا بڑا حصہ خرچ ہوتا ہے کے لیے مضبوط گورننس درکار ہوگی جس کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ پالیسی کے تحت آزاد ڈائریکٹرز کی تقرری نامزدگی کے عمل کے ذریعے ہوگی۔
شمشاد اختر کے مطابق پاکستان اپنے متعدد سرکاری اثاثوں کو بیرونی کمپنیوں کو آؤٹ سورس کرنے پر بات چیت کرتا رہا ہے۔
مارچ میں، اس نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلائے جانے والے تین بڑے ہوائی اڈوں پر آپریشنز اور زمین کے اثاثوں کی آؤٹ سورسنگ کا آغاز کیا تھا۔
حکومت نے مالی سال 2024 کے بجٹ میں نجکاری کے تعطل کے عمل سے حاصل ہونے والی وصولیوں کے لیے صرف 15 ارب پاکستانی روپے کا بجٹ مختص کیا ہے۔
اس کے بعد جمعرات کی شام وفاقی وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی کے ہمراہ ایک اور نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد کا کہنا ہے کہ ’یہ تاثر غلط ہے کہ نگران حکومت نے اداروں کی نجکاری کے لیے کوئی منصوبہ بنایا ہے، یہ عمل 2001 سے محتلف حکومتوں کے دور میں چلتا رہا ہے اور فہرست 10 کے قریب اداروں کی نجکاری تک پہنچی ہے اس میں نگران حکومت نے کسی ادارے کا اضافہ نہیں کیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ نگران حکومت ایس او ایز کی نجکاری کے عمل کو قانون کے مطابق آگے بڑھائے گی۔