کراچی کے مصروف ال آصف سکوائر کے علاقے میں ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر افغان پناہ گزین نازیہ سیف اب اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں کیوں کہ پولیس نے گذشتہ ہفتے ان کے شوہر کو غیر قانونی افغان پناہ گزین ہونے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
نازیہ کے شوہر دیہاڑی دار مزدور ہیں جن کی گرفتاری کے بعد ان کے خاندان کو کھانے کے لالے پڑ گئے ہیں۔
پاکستان نے رواں ماہ کے آغاز میں ملک میں موجود غیر قانونی پناہ گزینوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تھا اور اسی سلسلے میں کراچی پولیس نے سینکڑوں افغان شہریوں کو غیر قانونی پناہ گزین ہونے کے الزام میں گرفتار کر لیا تھا۔
گذشتہ جمعے ملک کے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا تھا کہ پاکستان سامان اور غیر ملکی کرنسی کی سمگلنگ کو روکنے کے لیے تمام غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کو واپس بھیجے گا۔
سابق سوویت یونین کی جنگ کے بعد پاکستان افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا۔
اقوام متحدہ کے مطابق یو این ایچ سی آر کی مدد سے رضاکارانہ وطن واپسی کے پروگرام کے تحت 2002 سے اب تک 44 لاکھ سے زائد افغان پناہ گزینوں اپنے وطن واپس جا چکے ہیں لیکن تقریباً 14 لاکھ اب بھی پاکستان بھر کے مہاجر کیمپوں، دیہاتوں اور شہری مراکز میں مقیم ہیں۔
28 سالہ نازیہ سیف نے عرب نیوز کو بتایا: ’میرے شوہر اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے سخت محنت کرتے تھے۔ اب جب پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا ہے تو اب ہم کیا کریں گے؟‘
انہوں نے مزید کہا کہ سیف الدین کے پاس رجسٹریشن کارڈ (پی او آر) موجود تھا، جس کے تحت افغان پناہ گزین پاکستان میں قانونی طور پر رہ سکتے ہیں۔
ان کے بقول: ’قانون اس طرح نہیں چلتا، اس کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔‘
32 سالہ سیف الدین سڑک کے کنارے ایک سٹال پر فرائز فروخت کر رہے تھے، جب پولیس نے انہیں 11 ستمبر کو گرفتار کیا۔
کراچی میں افغان قونصل جنرل سید عبدالجبار نے کہا کہ نو ستمبر سے کریک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد سے اب تک 900 سے زائد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، تاہم انہوں نے تصدیق کی کہ اس کے بعد سے اب تک دو سو افراد کو رہا بھی کیا جا چکا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عبدالجبار نے عرب نیوز کو بتایا: ’900 سے زیادہ (افراد) گرفتار کیے گئے ہیں اور کریک ڈاؤن اب بھی جاری ہے۔ پولیس قانونی دستاویزات کے ساتھ افغان پناہ گزینوں کو ہراساں کرنا جاری رکھے ہوئے ہے۔‘
عرب نیوز نے ان الزامات پر تبصرہ کرنے کے لیے وزیراعلیٰ سندھ کے دفتر، انسپکٹر جنرل آف پولیس اور کراچی پولیس کے سربراہ سے رابطہ کیا لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
پاکستانی پولیس حکام ماضی میں ان الزامات کو مسترد کر چکے ہیں کہ وہ ملک میں قانونی طور پر مقیم افغان پناہ گزینوں کو ہراساں کرتے ہیں۔
کراچی پولیس کے ترجمان ریحان خان نے منگل کو انڈپینڈنٹ اردو کو تصدیق کی تھی کہ پولیس نے نو ستمبر سے غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا ہے اور اس دوران نو سے 14 ستمبر تک مجموعی طور پر 545 غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کو گرفتار کیا ہے۔
صوبہ سندھ میں افغان پناہ گزینوں کی تنظیم کے سربراہ حاجی عبداللہ نے کہا کہ ان کے پاس ڈیٹا موجود ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نو ستمبر سے اب تک ایک ہزار 200 افراد کو جیلوں میں بند کیا گیا ہے جبکہ تین ہزار 800 افراد نے پولیس کو مبینہ طور پر رشوت دینے کے بعد رہائی حاصل کر لی ہے۔
افغانستان کے شہر قندوز سے تعلق رکھنے والے سیف کے خاندان کے بیشتر افراد پاکستان میں پیدا ہوئے۔ ان کے بھائی احسان خان بھی ان افغان پناہ گزینوں میں شامل ہیں جنہیں کریک ڈاؤن میں گرفتار کیا گیا تھا۔
نازیہ نے بتایا: ’انہیں (احسان) کو صرف ایک دن پہلے ہی گرفتار کیا گیا تھا اور انہوں نے ان سے ایک ہزار روپے کی اجرت چھین لی اور ان کے مہاجر کارڈ کی فوٹو کاپی کو پھاڑ کر پھینک دیا۔‘
سیف اور احسان کی والدہ نے کہا کہ ان گرفتاریوں نے ان کے خاندان کو تباہ کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اب گھریلو ضروریات کا خیال کون رکھے گا؟ کھانے کا بندوبست کون کرے گا کیونکہ میرے بیٹے جیل میں ہیں۔‘
ان گرفتاریوں کے تناظر میں خاندان نے سیف الدین کے سب سے چھوٹے بھائی صلاح الدین کو باہر جانے سے منع کر دیا۔ صلاح الدین گذشتہ نو سال سے اپنے گھر میں محصور ہیں۔
20 سالہ صلاح الدین نے عرب نیوز کو بتایا: ’جب میں آج پھل خریدنے بازار گیا تو ایک پولیس والے نے مجھ سے سات ہزار روپے ہتھیا لیے۔ انہوں نے مجھے دھمکی دی کہ اگر میں نے انہیں رشوت نہ دی تو وہ مجھے گلشن معمار کے جنگل میں لے جا کر انکاؤنٹر میں مار ڈالیں گے۔‘
ایک اور پناہ گزین نقیب اللہ خان نے کہا کہ افغان لوگ یا تو گھر کے اندر ہی رہنے پر مجبور ہیں یا اگر انہیں باہر جانا پڑے تو پولیس سے بچنے کے لیے وہ اپنے چھوٹے بچوں کو ساتھ لے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا: ’جب ہم باہر جاتے ہیں تو ہمیں اپنے چھوٹے بچے کو موٹر سائیکل پر ایسے بٹھانا پڑتا ہے جیسے وہ ہمارا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ ہو۔‘
ان کے بقول: ’ہمارے پاس مہاجر کارڈز ہیں لیکن پولیس انہیں تسلیم نہیں کرتی۔ ہم چوروں کی طرح باہر نکلتے ہیں۔‘
اس سنگین صورت حال کو خوفناک بیان کرتے ہوئے عبداللہ نے کہا کہ افغان پناہ گزینوں کو اپنے گھروں تک محدود کر دیا ہے اور لوگ کاروبار کرنے یا اپنے خاندانوں کی کفالت کے لیے روزانہ اجرت حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔
ان کے بقول: ’گذشتہ 12 دنوں سے افغانوں کے گھر جیلوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔‘