پاکستان کے نگراں وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو اسلام آباد اور کابل کے درمیان تلخیوں کی وجہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت کو تنظیم کے خلاف ’ٹھوس عملی اقدامات‘ لینے کی ضرورت ہے۔
امریکی شہر نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران ٹی آر ٹی ورلڈ سے گفتگو میں جلیل عباس جیلانی نے افغان حکام پر پاکستان اور دنیا کے دوسرے ممالک سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ افغانستان سے پاکستان کے اندر حملے جاری ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’وہ (افغان طالبان) افغان سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کے لیے پرعزم ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ’افغانستان کے اندر سے پاکستان کی سرزمین پر ہونے والے (کالعدم) ٹی ٹی پی کے حملے ہمارے لیے ایک بڑی تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں۔‘
وزیر خارجہ نے کا مزید کہنا تھا کہ یہ معاملہ پاکستان کے لیے ایک مخمصے کا باعث ہے کیونکہ وہ افغانستان کو ایک مستحکم اور خوشحال ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔
’لیکن پھر شدت پسند گروہوں کی ایک بڑی تعداد کی موجودگی، چاہے وہ ٹی ٹی پی ہو یا داعش خراسان اور دیگر تنظیمیں جن کی افغاستان میں بنیادیں ہیں۔
’وہ (تنظیمیں) نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر علاقائی ممالک کے لیے بھی ایک بڑی تشویش کا باعث ہیں۔‘
جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ اسلام آباد کی افغانستان میں طالبان حکمرانوں کے ساتھ بات چیت جاری ہے اور کابل کو بتایا گیا کہ ’انہیں ان وعدوں کو پورا کرنا ہو گا، جو انہوں نے پاکستان کے علاوہ عالمی برادری سے کیے ہیں، جن کے تحت وہ افغان سر زمین کو دوسرے ممالک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کے پابند ہیں۔‘
معیشت
پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اس مہینے اسلام آباد کا دورہ کرنے والے جی سی سی ممالک کے نمائندوں کے ساتھ ’متعدد ایم او یوز اور معاہدوں‘ پر دستخط کرے گا۔
اس سال جون میں پاکستان نے ایک خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل، جو ایک سول ملٹری ہائبرڈ فورم ہے، قائم کیا تھا جس کا مقصد غیر ملکی فنڈنگ کو راغب کرنا، خصوصاً جی سی سی ممالک سے زراعت، کان کنی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، دفاعی پیداوار اور توانائی کے میدانوں میں۔
پاکستان کو ادائیگیوں کے توازن کے بحران کے ساتھ اور اپنے تجارتی خسارے کو پورا کرنے اور موجودہ مالی سال میں اپنے بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی کے لیے اربوں ڈالر کا زرمبادلہ درکار ہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا تھا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اگلے پانچ سالوں میں پاکستان میں کان کنی، زراعت اور آئی ٹی کے شعبوں میں 25 ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کریں گے۔
جلیل عباس جیلانی نے معاہدوں کی تفصیلات بتائے بغیر کہا کہ ’ہم توقع کر رہے ہیں کہ جی سی سی ممالک کے نمائندے اس مہینے کے دوران پاکستان کا دورہ کریں گے اور سعودی عرب، یو اے ای اور دوسرے جی سی سی ممالک کے ساتھ متعدد ایم او یوز اور معاہدوں پر دستخط کیے جانے کا امکان ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’یہ یقینی طور پر پاکستان اور جی سی سی ممالک کے درمیان ایک عظیم شراکت داری ثابت ہو گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے پاکستان میں مہنگائی کا دباؤ پیدا کر دیا ہے، جس کے متعلق ان کے خیال میں کوئی بھی حکومت اس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’لیکن اس کے ساتھ ہی لوگوں کو احساس ہے کہ ایندھن کی قیمت بین الاقوامی گیس کی قیمتوں سے بھی منسلک ہے۔ ظاہر ہے کہ جب عالمی سطح پر گیس کی قیمتیں کم ہوں گی تو اس کا فائدہ عوام تک پہنچے گا۔‘
جلیل عباس جیلانی نے روس یوکرین جنگ کو پرامن مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بحران پر پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے۔
’یہ وہ چیز ہے جس کی ہم نے ہمیشہ وکالت کی ہے۔ تقریباً دو سال سے جاری تنازعے نے تقریباً ہر ملک میں اضطراب پیدا کر دیا ہے۔ ایندھن کی قلت، خوراک کی قلت وغیرہ کے حوالے سے بہت سے ممالک کو معاشی بحران کا سامنا ہے۔‘
پاکستان کے نگراں وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ میں اصلاحات کافی عرصے سے ایجنڈے پر ہیں۔
’ہمارا موقف مستقل ہے۔ ایک معیار پر مبنی نقطہ نظر ہونا چاہیے، جس کے مطابق اس کی رکنیت کو بڑھایا جانا چاہیے اور یہ جمہوری عمل کے ذریعے ہونا چاہیے۔‘
انہوں نے واضح کیا کہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل (یو این ایس سی) کے ایک ایلیٹ ممبر کا ابھرنا برداشت نہیں کیا جائے گا کیونکہ ’بھارت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی بیشتر قراردادوں کی خلاف ورزی کی ہے جس میں کشمیر بھی شامل ہے جو یو این ایس سی کے ایجنڈے میں ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔
’ہم یو این ایس سی کی ان قراردادوں پر عمل درآمد چاہتے ہیں جن میں منصفانہ اور آزاد استصواب رائے کے انعقاد کا مطالبہ کیا گیا ہے اور یہ ایسی چیز ہے جو نہیں ہوئی ہے۔‘
افغانستان میں پاکستان کے اندر شدت پسند کارروائیوں میں ملوث افراد کی گرفتاری کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے افغان طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے متعدد بار رابطہ کیا لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
افغان طالبان اور پاکستان کے مابین تعلقات تب کشیدہ ہوئے تھے جب چترال میں دو ہفتے پہلے پاکستانی حکام کی جانب سے الزام لگایا گیا تھا کہ افغانستان سے در اندازی کی گئی ہے جس چار فوجی اہلکار جان سے گئے تھے۔
اس کے بعد افغان طالبان کے ذبیح اللہ مجاہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور پاکستان اپنی سکیورٹی کے خود ذمہ دار ہے۔
ذبیح اللہ نے مزید بتایا تھا کہ ہم افغانستان کی زمین کو کسی کے خلاف بھی استعمال ہونے نہیں دیں گے اور چترال کے واقعے کا افغانستان پر الزام سراسر بے بنیاد ہے۔