سکردو میں مچلو گلیشیئر کیسے ’اگایا‘ گیا؟

روایت کے مطابق گلیشیئر بھی زندہ شے ہیں لہذا کہیں بھی گلیشیئر اگانے کے لیے لازم ہے کہ دو مختلف جگہوں سے نر اور مادہ گلیشیئر کی برف لائی جائے اور پھر خاص طریقے سے ان کا باہمی ملاپ ہی ایک نئے گلیشیئر کو جنم دے سکتا ہے۔

14 جولائی 2023 کو پاکستانی پورٹرز کے ٹو کے قریب پگڈنڈی کے ساتھ بلتورو گلیشیئر پر سفر کرتے ہوئے (جو سٹینسن/ اے ایف پی)

اگست کی 29 تاریخ تھی، میں کالج روڈ سکردو میں واقع کیفے 99 کی ایک بینچ پر بیٹھا سبز چائے کا لطف لے رہا تھا جبکہ سامنے بینچ پر لمبی سفید ریشمی داڑھی والے ایک بزرگ جن کے سر پر سفید اونی ٹوپی اور گلے میں مخصوص چادر کا مفلر تھا، کیفے کے مالک سے گفتگو کر رہے تھے۔

یہ کیفے مچلو گاؤں کے علی محمد خلیل نے کھول رکھا ہے، جہاں توے کا تازہ تازہ پراٹھا اور گرم چائے ملتی ہے۔ یوں نوجوانوں کا کافی رش رہتا ہے۔

اسی کیفے میں بلتستان کی روایتی نمکین سبز چائے بھی ہر وقت تیار ملتی ہے لہذا گاہکوں کا مخصوص گروپ سبز چائے کے لیے یہاں کا رخ کرتا ہے۔ علی محمد خلیل کے بڑے بیٹے نثار خلیل کیفے کے انتظام و انصرام میں مشغول ہیں۔

وہ بزرگ نثار خلیل کو گانچھے سے متعلق کچھ بتا رہے تھے لہذا میری دلچسپی بڑھ گئی اور میں ان کے پاس بینچ پر جا کر بیٹھ گیا۔ موضوع تھا پانی کی تنگی، اور بزرگ مچلو میں انسانی ہاتھوں سے بنے ایک مصنوعی گلیشیئر کا تذکرہ کر رہے تھے۔

میں نے گفتگو میں مداخلت کی اور ان کا تعارف حاصل کیا۔ وہ مچلو کے رہنے والے ہیں، عمر 78 سال اور فوج سے ریٹائرڈ ہیں۔ انہوں نے اپنا نام حاجی موسیٰ بتایا۔

حاجی موسیٰ نے بتایا کہ ان کی نوجوانی کے دنوں میں انہوں نے خود دیکھا کہ کئی بار گاؤں کے چار افراد آپو علی، ٹورزی عبداللہ، ناٹھے محمد اور غلام علی چرونگ (بید کی ٹہنیوں سے بنا ٹوکرا) اٹھائے مچلو نالے کی بلندیوں کی طرف جاتے تھے۔

ان کے ٹوکروں میں مقامی ساخت کے مٹکے لدے ہوئے ہوتے تھے، جن میں خاص پانی ہوتا تھا اور پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ پانی ’گلیشیئر اگانے‘ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

موسیٰ اور ان کے دوستوں نے ٹوکرے اٹھانے میں مدد کی پیشکش کی تو بزرگوں نے انہیں دور بھگا دیا، وجہ یہ تھی کہ اس کام کے لیے ’پاکیزگی اور خاموشی شرط ہے‘ اور بقول ان بزرگوں کے ابھی ان کا کھلنڈرا پن نہیں گیا تھا۔

مچلو گاؤں ضلع گانچھے کے مرکز خپلو سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہوشے وادی کے آغاز میں ہی ہے۔

500 سے زائد گھروں پر مشتمل یہ گاؤں اپنے لینڈ سکیپ اور خاص طور پر خوبانی کے باغات کے لیے سیاحوں میں بہت مقبول ہے۔ گاؤں کی خانقاہ بہت بڑی اور لکڑی کے مخصوص طرز تعمیر کی وجہ سے مشہور ہے، جس کے اطراف میں گاؤں کے مکانات پھیلے ہوئے ہیں۔

گاؤں کی پانی کی ضرورت مچلو لا سے آنے والی ندی پورا کرتی ہے جبکہ چھوٹے چھوٹے کھیت زینہ دار چبوتروں کی طرح پھیل کر نالے کے آغاز سے نیچے دریائے ہوشے تک پہنچتے ہیں جو گاؤں سے کافی نیچے کھائی میں بہتا ہے۔

1995 کا سال حاجی موسیٰ کے لیے بڑا یادگار رہا جب گاؤں میں پانی کی تنگی سے نبرد آزما ہونے کے لیے مچلو نالے کی بلندیوں پر مصنوعی گلیشیئر لگانے کا فیصلہ ہوا۔

یہ بڑا محنت طلب اور روایتی طریقہ تھا جس کے ساتھ کئی اساطیری رواج اور طور طریقے بھی جڑے ہوئے تھے۔ ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا نام ’آپو چو نور علی گلیشیئر کمیٹی‘ قرار پایا۔ یہ نام ایک بزرگ گاؤں کی وجہ سے دیا گیا، جن کا آستانہ گاؤں میں آج بھی لائق تکریم ہے۔

گلیشیئر اگانے کے لیے سب سے پہلے تو برف کی ضرورت ہوتی ہے اور برف بھی ایک نہیں دو مختلف گلیشیئر سے، مگر اس میں بھی ایک قباحت ہے۔

بلتستان کی قدیم اساطیری روایت ہے کہ مصنوعی گلیشیئر اگانے کے لیے صرف ایک قسم کی برف کافی نہیں، روایت کے مطابق گلیشیئر بھی زندہ شے ہیں لہذا کہیں بھی گلیشیئر اگانے کے لیے لازم ہے کہ دو مختلف جگہوں سے نر اور مادہ گلیشیئر کی برف لائی جائے اور پھر خاص طریقے سے ان کا باہمی ملاپ ہی ایک نئے گلیشیئر کو جنم دے سکتا ہے۔

روایت یہ ہے کہ جو بھی برف اٹھانے کی مہم میں شامل ہوں، وہ پاک و پاکیزہ ہوں اور دوران سفر کوئی بھی ایک دوسرے سے بات نہ کرے۔ علاوہ ازیں ٹوکرے اٹھا کر لے جاتے وقت اگر کسی فرد کو تھکن محسوس ہو اور وہ کچھ دیر ٹھہر جانا چاہے تو ٹوکرا نیچے زمین پر نہیں رکھ سکتا بلکہ اسے پشت پر ہی رکھ کر کھڑے کھڑے مختصر آرام کرنا ہو گا۔

حاجی موسیٰ نے بتایا کہ گلیشیئر کمیٹی نے مشاورت کے بعد تین مختلف گلیشیئرز سے برف لانے کا فیصلہ کیا لیکن یہ آسان نہیں تھا۔ انہوں نے جن گلیشیئرز کا انتخاب کیا تھا وہ مچلو گاؤں یا ہوشے وادی کے آس پاس نہیں بلکہ دور بہت دور سکردو، شگر اور استک روندو میں تھے، وہاں تک سفر اور برف کو صحیح حالت میں مچلو لانا خود ایک بڑا امتحان تھا۔

لہذا 22 افراد  نے اس کٹھن ذمے داری کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا اور تین ٹولیوں کی شکل میں برف لانے کی دشوار مہم پر روانہ ہو گئے۔

ایک ٹیم نے سکردو کے چنداہ گاؤں کے پہاڑ پر موجود پھونگ کھانگ گلیشیئر کا رخ کیا۔ یہ گلیشیئر سکردو کی لوک کہانیوں میں دیومالائی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسری ٹیم سکردو سے بھی آگے مغرب کی طرف کی وادی روندو کے گاؤں استک کی طرف گئی جہاں گلیشیئر کے تیزی سے بڑھنے کا شہرہ تھا۔ تیسری ٹیم نے شگر کے گاؤں الچوڑی کے اندر نالے میں موجود خوسر گانگ گلیشیئر سے برف لانے کی ٹھان لی اور وہاں کی طرف نکل پڑے۔

اگلے مرحلے میں پانی کا انتظام کرنا تھا۔ اس کے لیے دو ایسی جگہوں کا انتخاب کیا گیا جہاں دریاؤں کا مقام اتصال ہو یعنی ایک جگہ وہ، جہاں دریائے سندھ اور دریائے شیوک کا گول نامی گاؤں کے قریب سنگم ہے، جسے بلتی زبان میں چھمدو کہتے ہیں، جبکہ دوسری وہ جگہ جہاں دریائے شیوک اور دریائے مشہ بروم، سرموں گاؤں کے قریب ایک دوسرے سے بغل گیر ہوتے ہیں۔

14 چشموں سے بھی پانی اکٹھا کیا گیا، ان میں سے 12 گاؤں کے اندر ہی تھے جبکہ ایک سیلنگ گاؤں کا چشمہ اور دوسرا براہ گاؤں کا چشمہ تھا۔

جب ہم حاجی موسیٰ کی باتوں میں محو تھے اسی دوران نثار خلیل نے ہمارے سامنے گرم گرم چائے اور پراٹھے رکھ دیے لہذا کچھ دیر ہم نے توقف کیا۔ چائے پینے کے بعد حاجی موسیٰ نے گلا کھنکارتے ہوئے لمحہ بھر میں اپنی یادوں کو مجتمع کرنے کے بعد گلیشیئر کی کہانی وہیں سے جوڑی جہاں انہوں نے توقف کیا تھا۔

 

حاجی موسیٰ کا کہنا تھا کہ ان کی اس محنت شاقہ کا پھل اس وقت تک ملنا نہیں تھا جب تک دیگر لوازمات بھی ساتھ نہ ہوں اور وہ کئی قسم کی اشیا تھیں، ان میں بکری کی کھالیں، ژھوق فلو (Seabuckthorn)، لکڑی کا کوئلہ، لکڑی کا برادہ، جو کا بھوسہ، یاق رس گری کے سخت چھلکے اور پہاڑی نمک شامل تھا۔

اب گاؤں میں نر مادہ گلیشیئرز کی برف، مختلف چشموں کا پانی اور دیگر متعلقہ سامان جمع ہوگیا تھا، یہ سب کچھ مچلو کی پہاڑی پر پہنچانا تھا لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں تھا۔ اگلے مرحلے میں اساطیری روایات کا سامنا تھا، کچھ بندشیں تھی جن کا احترام اور پاسداری لازم تھیں ورنہ یہ ساری محنت اکارت جانے کا خدشہ تھا۔

روایت یہ ہے کہ جو بھی برف اٹھانے کی مہم میں شامل ہوں، وہ پاک و پاکیزہ ہوں اور دوران سفر کوئی بھی ایک دوسرے سے بات نہ کرے۔ علاوہ ازیں ٹوکرے اٹھا کر لے جاتے وقت اگر کسی فرد کو تھکن محسوس ہو اور وہ کچھ دیر ٹھہر جانا چاہے تو ٹوکرا نیچے زمین پر نہیں رکھ سکتا بلکہ اسے پشت پر ہی رکھ کر کھڑے کھڑے مختصر آرام کرنا ہو گا۔

یوں بڑے بڑے چورونگ (ٹوکرے) میں برف و دیگر سامان اٹھانے کے لیے گاؤں کے 52 افراد مقرر ہوئے تھے۔

جولائی کے مہینے میں مچلو ٹاپ کے نیچے پہلے ہی خندق کھود کر جگہ بنائی گئی تھی۔ اب جب برف لے جانے کی مہم شروع کی گئی تو ستمبر کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ اس کا انتخاب اس لیے ہوا کہ اس ماہ سے بلتستان میں ٹھنڈ بڑھنا شروع ہو جاتی ہے لہذا برف پگھلنے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

غرض ستمبر میں جمعے کو صبح چار بجے مچلو ٹاپ کی طرف پیش قدمی شروع کی گئی۔ ہر فرد کے پاس اس کا اپنا زاد راہ موجود تھا جو بھوک لگنے پر خاموشی سے نوش کیا گیا۔ مچلو ٹاپ کے نیچے جو جگہ گلیشیئر اگانے کے لیے جولائی میں بنائی گئی تھی وہاں تک ٹیم مکمل خاموشی سے پہنچی۔ اب برف رکھنے کا مرحلہ تھا تب حاجی موسیٰ بروشالی آگے بڑھے اور ہاتھ کے اشاروں سے باقی ساتھیوں کو ہدایات دینا شروع کیں۔

چوکور خندق پہلے سے تیار تھی اس میں برف سادہ طریقے سے نہیں بچھائی گئی بلکہ حاجی موسیٰ کے بقول باقاعدہ آدمی کی شکل، یعنی برف کا آدمی بنایا گیا جو پاؤں پسارے بیٹھا ہوا تھا۔

گو اس قسم  کی شکل بنانے کی کوئی روایتی توضیح اب بھی حاجی موسیٰ کے پاس نہیں ہے لیکن میرا مفروضہ ہے کہ اس طرح حیات یعنی زندگی کا تجسیمی اظہار کیا گیا کیونکہ مقامی روایت کے مطابق گلیشیئر زندہ شے ہے۔

تمام اشیا ڈال دی گئیں، برف کے اوپر سیبک تھارن اور اس کے اوپر مشکیزوں میں چشموں کا پانی تاکہ کانٹوں کے چھبنے سے قطرہ قطرہ پانی برف پر گرتا رہے۔ سائٹ پر صرف چار افراد رہے باقی سب کو واپس بھیج دیا گیا۔ اب خندوق کو بجری، مٹی اور پتھروں سے ڈھانپا گیا اور ہوا کے گزرنے کے لیے بھی سوراخ رکھے گئے۔

ان کی خاموشی برقرار تھی صرف ہاتھ کے اشاروں سے ایک دوسرے کو ہدایات دی جاتی تھیں۔ کام مکمل ہونے کے بعد یکدم واپسی کی راہ نہیں لی گئی بلکہ چاروں افراد اپنی اپنی سمت میں کچھ قدم مزید اوپر کی طرف چڑھے اور مختلف راستہ اپنا کر نیچے اترنا شروع کیا کیونکہ کہاوت تھی کہ سائٹ سے سیدھے اترنے سے برف جمتی نہیں بلکہ ختم ہو جاتی ہے۔

واپسی کے آدھے راستے پر حاجی موسیٰ اور تینوں دیگر ساتھیوں کو وہ گروپ ملا جو برف اور دیگر سامان سائٹ پر چھوڑنے کے بعد ان کے انتظار میں یہاں فروکش تھا۔ انہوں نے ایک بکری ذبح کی اور گوشت کھایا اور خوب باتیں بھی کی کیونکہ یہاں سے خاموشی کی پابندی ختم ہو گئی تھی۔

ایک سال بعد یہی چار افراد پھر سائٹ پر گئے اور اوپر چھت سی بنا دی تاکہ گرمی کو روکا جا سکے۔ حاجی موسیٰ کا کہنا ہے کہ گلیشیئر نے جڑ پکڑ لی تھی۔

2016 میں حاجی موسیٰ پھر مچلو ٹاپ پر گئے تو دیکھا کہ گلیشیئر نے اپنی جسامت کافی حد تک بڑھا لی تھی۔

ہاں میں نے حاجی موسیٰ کو بروشالی کیوں لکھا تو وہ یہ کہ انہوں نے بتایا کہ مچلو گاؤں میں دس کے قریب محلے ہیں جن میں سے پانچ کے بارے میں یہ قدیمی روایت موجود ہے کہ ان کے آباد کار ’بروکپا‘ ہیں اور ’بروشال‘ سے آئے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ