انڈیا میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلق رکھنے والے ایک قانون ساز کو مسلمان رکن پارلیمنٹ کے خلاف ایوان کے اندر توہین آمیز اور اسلاموفوبیا پر مبنی کلمات ادا کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست پارٹی کے رکن پارلیمنٹ رمیش بیدھوری کے خلاف حزب اختلاف کے متفقہ رد عمل نے بی جے پی کے سربراہ کو انہیں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرنے پر مجبور کر دیا۔
بیدھوری نے پارلیمنٹ میں اپنے رویے کی وضاحت مانگے جانے کے چند دن بعد انڈین دارالحکومت نئی دہلی میں بی جے پی کے صدر جگت پرکاش نڈا سے پارٹی ہیڈ کوارٹر میں ملاقات کی۔
62 سالہ بیدھوری لوک سبھا (پارلیمنٹ کے ایوان زیریں) کے رکن ہیں اور جنوبی دہلی کے امرا کے حلقے سے عوامی نمائندگی کرتے ہیں۔ نریندر مودی کے ناقدین نے حکمران جماعت کے دور میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت اور فرقہ وارانہ تشدد پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
گذشتہ جمعرات کو چندریان تھری چاند مشن کی کامیابی پر بحث کے دوران بیدھوری نے حزب اختلاف کے رکن پارلیمنٹ کنور دانش علی کو ہدف بنایا اور انہیں ’دہشت گرد‘ اور ’عسکریت پسند‘ قرار دیا۔ انہوں نے ان کے خلاف چند اور مسلم مخالف کلمات بھی ادا کیے۔
بیدھوری کے ریمارکس کو بعد میں سرکاری ریکارڈ سے حذف کر دیا گیا لیکن اس سے پہلے اس بحث کی ویڈیو بڑے پیمانے پر شیئر کی گئی اور سوشل میڈیا پر اس کی مذمت کی گئی۔
بحث کے دوران ایوان کے سیشن کی صدارت کرنے والے انڈین نیشنل کانگریس کے رکن پارلیمنٹ کوڈی کنل سریش نے کہا کہ ’جب دانش علی نے مجھے بتایا کہ بیدھوری نے کیا باتیں کیں ہیں تو میں نے فوری طور پر غیر پارلیمانی الفاظ کو حذف کرنے کا حکم دیا۔‘
لوک سبھا کے سپیکر اوم برلا نے مبینہ طور پر بیدھوری کو متنبہ کیا کہ اگر انہوں نے ایوان میں اس طرح کا رویہ دوبارہ اختیار تو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
دانش علی نے سپیکر کو لکھے گئے خط میں بی جے پی کے رکن اسمبلی کے خلاف استحقاق مجروح کرنے کی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اپنی تقریر کے دوران انہوں (رمیش بیدھوری) نے میرے خلاف سب سے زیادہ نازیبا اور توہین آمیز الفاظ استعمال کیے جو لوک سبھا کے ریکارڈ کا حصہ ہیں۔‘
Shri @ombirlakota ji, please take it seriously as this is the first attack on parliamentary democracy in the new Parliament building. Shri @rameshbidhuri must be punished as per the rules to save the dignity of the House. pic.twitter.com/YWnPjc7jbR
— Kunwar Danish Ali (@KDanishAli) September 22, 2023
’یہ انتہائی بدقسمتی کی بات اور حقیقت یہ ہے کہ نئی پارلیمنٹ میں اور سپیکر کی حیثیت سے آپ کی قیادت میں ایسا ہوا جو اس عظیم ملک کے اقلیتی رکن اور پارلیمنٹ کے منتخب رکن کی حیثیت سے میرے لیے واقعی دل توڑ دینے والا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
این ڈی ٹی وی کے مطابق رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ اس واقعے کے بعد سے وہ سو نہیں پا رہے اور ذہنی خلفشار کے دہانے پر ہیں۔ انہوں نے دھمکی دی کہ اگر بیدھوری کے خلاف کارروائی نہ کی گئی تو وہ پارلیمنٹ سے مستعفی ہو جائیں گے۔
حزب اختلاف کی جماعتوں نے سپیکر کو ایک الگ خط میں مطالبہ کیا ہے کہ استحقاق کمیٹی کی جانب سے معاملے کی تحقیقات مکمل ہونے تک بیدھوری کی پارلیمانی رکنیت معطل کی جائے۔
لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر ادھیر رنجن چوہدری نے کہا کہ ’ناپسندیدہ الفاظ‘ کو ہٹانے کا بہت کم اثر ہوا کیوں کہ تمام معاملا پہلے ہی میڈیا میں ریکارڈ ہو چکا تھا۔
انڈیا کی سرکردہ مسلم تنظیموں نے بھی بیدھوری کی نااہلی کا مطالبہ کرتے ہوئے ان کے بیان کو ’پوری مسلمان برداری سے نفرت کا ثبوت‘ قرار دیا ہے۔
Abusing Muslims, OBCs an integral part of BJP culture - most now see nothing wrong with it. @narendramodi has reduced Indian Muslims to living in such a state of fear in their own land that they grin & bear everything.
— Mahua Moitra (@MahuaMoitra) September 22, 2023
Sorry but I’m calling this out. Ma Kali holds my spine. pic.twitter.com/3NAqi5FWPy
اخبار دی ہندو کے مطابق جمیعت علمائے ہند کے صدر ارشد مدنی نے کہا کہ ’ایک مسلم رکن پارلیمنٹ کے خلاف اس طرح کی زبان کے استعمال ظاہر ہوتا ہے کہ عام مسلمانوں کو تو ایک طرف رکھ دیاجائے، اب مسلمانوں کا منتخب نمائندہ پارلیمنٹ میں بھی محفوظ نہیں ہے۔‘
’اگر یہ ایک نئے انڈیا کی تصویر ہے تو یہ خطرناک اور مایوس کن ہے۔‘
© The Independent