ضلعے کا درجہ حاصل ہونے کے بعد 10 سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود تورغر میں ضلعی ہسپتال کی تعمیر نہیں ہوسکی اور نہ ہی وہاں کوئی لیڈی ڈاکٹر موجود ہے۔
تورغر جو پہلے قبائلی علاقہ کالا ڈھاکہ کے نام سے جانا جاتا تھا اسے 2011 میں صوبائی حکومت نے ضلعے کا درجہ دیا تھا اور تین تحصیلوں جدبا، میرا مداخیل اور دوڑ میرا کو اس میں شامل کر دیا تھا۔
ضلعے کا درجہ ملنے کے بعد سے اب تک تورغر میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال، ضلعی عدالتیں، محکمہ خزانہ اور سڑکوں کی تعمیر مکمل نہیں ہوسکی۔ جس سے مقامی لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہیں۔
تورغر جدبا کے علاقے مسی خیل کے رہائشی محمد زاہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے اس وقت کالا ڈھاکہ کے پانچ قبائل کے عمائدین پر مشتمل جرگے نے ضلعے کا مطالبہ اس امید سے کیا تھا کہ کالا ڈھاکہ ضلع تورغر بن جائے گا تو اس میں ترقیاتی کام ہوں گے، ہسپتال بنیں گے، سڑکیں، سکول اور کالج بنیں گے۔
محمد زاہد نے کہا کہ ’تورغر ضلع بننے کے بعد اس وقت کے وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی نے یہاں کا دورہ کر کے چھ ارب روپے کے ترقیاتی پیکج کا اعلان کیا تھا لیکن ابھی تک نہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کی عمارت بن سکی اور نہ عدالتوں کے لیے مختص زمین پر تعمیری کام شروع ہو سکا۔‘
محمد زاہد نے بتایا کہ اس وقت ضلع تورغر میں کوئی لیڈی ڈاکٹر، لیڈی ہیلتھ وزیٹر، لیبر روم اور نہ کوئی میٹرنٹی ہوم ہے۔ جس سے خواتین کو دوران حمل سخت مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو نے تورغر کے ڈپٹی کمشنر ضیاالرحمٰن سے بات کی جنہوں نے بتایا کہ ’تورغر کو ضلعے کا درجہ ملنے کے بعد 2012 سے یہاں پر سپیشل ترقیاتی پیکیج صوبائی حکومت کی جانب سے مختص ہوا ہے جس کے تحت مختلف قسم کی سکیموں پر کام شروع ہو چکا ہے جن میں کیمونیکشن سیکٹر، تعلیم، ذراعت وغیرہ کے شعبوں کے کافی منصوبوں پر کام کیا گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’تورغر میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال زیر تعمیر ہے۔‘
ضیاالرحمٰن نے بتایا کہ ’ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے علاوہ 10 سول ڈسپینسریاں ہیں اور ان 10 سی ڈیز کو بی ایچ یو یعنی بیسک ہیلتھ یونٹ میں تبدیل کرنا ہے۔ وہ جب بی ایچ یو میں تبدیل ہو جائیں گی تو 10 میڈیکل آفیسرز بھی آ جائیں گے اور باقی عملہ بھی آ جائے گا۔ جس سے صحت کا مسئلہ کافی حد تک حل ہو جائے گا۔‘
تورغر کے ڈپٹی کمشنر ضیاالرحمٰن نے بتایا کہ علاقے میں امدادی سرگرمیوں سے متعلق ضیاالرحمان نے بتایا کہ ’ڈی ایچ کیو بننے کے ساتھ اور 10 سی ڈیز کی اپگریڈیشن کے ساتھ ریسکیو 1122 کے لیے علیحدہ ایک عمارت بن رہی ہے۔
’لیکن فی الحال ہم نے کمپلیکس کو یہاں پر ڈی سی آفس میں جگہ دی ہے۔ ان کے پاس ایمبولینس اور فائربریگیڈ ہیں۔ باقی ریسکیو کے ضروری آلات ان کے پاس ہیں۔ وہ بہترین خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور لوگوں کو بروقت ریسکیو اینڈ ریلیف سروسز مہیا کر رہے ہیں۔‘