کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے دفتر نے اس دعوے کی سختی سے تردید کی ہے کہ جب وہ رواں ماہ جی 20 اجلاس میں شرکت کے لیے انڈیا گئے تو ان کا طیارہ ’کوکین سے بھرا ہوا تھا۔‘
اخبار ٹورنٹو سٹار کے مطابق ٹروڈو کے دفتر نے بدھ کو ایک بیان میں ٹی وی مباحثے کے دوران ریٹائرڈ انڈین سفارت کار کی جانب سے کسی ثبوت کے بغیر کیے گئے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بالکل غلط اور پریشان کن مثال ہے کہ کس طرح غلط معلومات میڈیا ذرائع ابلاغ جگہ بنا سکتی ہیں۔‘
اس عجیب وغریب دعوے کو انڈین ذرائع ابلاغ میں بڑے پیمانے پر جگہ دی گئی۔ یہ دعویٰ ایسے وقت سامنے آیا جب دونوں ملکوں کے درمیان شدید تنازع جاری ہے۔ انڈیا اور کینیڈا دونوں ایک دوسرے کے ایک ایک اعلیٰ سفارت کار کو ملک سے نکال چکے ہیں۔ اس سے پہلے ٹروڈو نے کہا تھا کہ کینیڈا میں سکھ رہنما کی موت میں انڈیا کے ملوث ہونے کے ’قابل اعتماد الزامات‘ موجود ہیں۔
سوڈان میں انڈیا کے سابق سفیر دیپک ووہرا نے پیر کے روز کہا کہ ’قابل اعتماد افواہیں‘ پائی جاتی ہیں کہ ’سراغ رساں کتوں کو ان (ٹروڈو) کے طیارے سے کوکین ملی اور ٹروڈو ’دو دن تک اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلے۔‘
اینکر دیپک چوراسیہ کی میزبانی میں زی نیوز پر ہونے والے شو میں شریک وہرا نے دعویٰ کیا کہ’وہ (ٹروڈو) صدر کے عشائیے میں نہیں گئے۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ منشیات کے استعمال کی وجہ سے اپنے ہوش وحواس میں نہیں تھے۔‘
شو کا آغاز اس انداز میں ہوا کہ اینکر نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ ’کینیڈین وزیر اعظم کے دماغ نے کس طرح کام کیا۔‘
ووہرا نے جواب دیا کہ ’کیا ان کے پاس دماغ ہے؟ وہ چھوٹے بچے ہیں۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ جب ان کی اہلیہ نے ٹروڈو کو دہلی ہوائی اڈے پر دیکھا تو وہ پریشان دکھائی دیے۔
’میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے دماغ میں کیا چل رہا تھا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان کے رویے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پریشان تھے۔‘ اینکر نے ووہرا کے دعووں پر سوال نہیں اٹھایا۔
انہوں نے کہا کہ ’وہ (ٹروڈو) تنہا ہو چکے ہیں۔ اب وہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ایک کینیڈین ریمبو ہیں اور ان کی موجودگی میں کچھ بھی غلط نہیں ہوسکتا ہے۔ انڈیا نے کینیڈا میں ویزا خدمات معطل کرکے ٹھیک کیا۔‘
یہ تبصرہ سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے بعد دہائیوں میں انڈیا اور کینیڈا کے درمیان سفارتی تعلقات کے بدترین دور میں سے ایک کے دوران کیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نئی دہلی اور اوٹاوا کے درمیان بحران گذشتہ ہفتے اس وقت شروع ہوا جب کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کینیڈین شہری کے قتل میں انڈیا کے ریاستی سطح پر ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔
نجر کو 18 جون کو وینکوور میں دو نقاب پوش افراد نے قتل کر دیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق انہوں نے نجر پر 30 سے 50 گولیاں چلائیں۔
کینیڈین حکام کا کہنا ہے کہ ان کے پاس انسانی ذرائع اور سگنلز کے ذریعے اکٹھی کی گئی خفیہ معلومات موجود ہیں جو اس قتل کے بارے میں ان کے دعووں کی تصدیق کرتی ہیں۔ ان میں کینیڈا میں موجود انڈین حکام کے درمیان رابطے بھی شامل ہیں۔
ٹروڈو نے گذشتہ ہفتے پارلیمنٹ کو بتایا کہ ’میں آپ کو یقین دلا سکتا ہوں کہ ان الزامات کو دارالعوام کے فلور پر شیئر کرنے کا فیصلہ ہلکا نہیں لیا گیا۔‘
’یہ (فیصلہ) انتہائی سنجیدگی کے ساتھ کیا گیا۔‘
ان الزامات نے دونوں ممالک کے درمیان تلخ تنازعے کو جنم دیا ہے۔
کینیڈا نے خفیہ ادارے کے لیے کام کرنے والے ایک سینئر انڈین سفارت کار کو ملک بدر کر دیا جب کہ انڈیا جو نجر کو 2020 میں ’دہشت گرد‘ قرار دے چکا ہے، نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے اس الزام کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دے کر مسترد کر دیا اور انڈیا میں کینیڈین انٹیلی جنس کے سربراہ کو ملک بدر کر دیا، سفری انتباہ جاری کیا، کینیڈا کے شہریوں کے لیے ویزے جاری کرنا بند کر دیا اور کینیڈا سے کہا کہ وہ انڈیا میں اپنے سفارت کاروں کی تعداد کم کرے۔
© The Independent