کینیڈا میں موجود سکھ اس وقت خبروں میں ہیں کیونکہ دو مہینے پہلے ہردیپ سنگھ کو کینیڈا میں تب قتل کیا گیا تھا جب وہ کار پارک میں گاڑی سے باہر آ رہے تھے۔ ہردیپ انڈیا کے آزادی پسند تحریک خالصتان کے رہنما تھے۔
انڈیا نے ہردیپ سنگھ کو دہشت گرد ڈیکلیئر کیا تھا اور ان پر انڈیا میں دہشت گردانہ کارروائیوں کا الزام بھی عائد کیا، جس کی ہردیپ سنگھ نے مختلف مواقع پر تردید کی۔
اس قتل کا الزام دو مہینے بعد کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے انڈیا پر لگایا ہے اور اس کے بعد دونوں ممالک کے مابین سفارتی کشیدگی میں شدت آ گئی ہے اور دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے سفیر بھی ملک سے بے دخل کر دیے ہیں۔
کلدیپ سنگھ کینیڈا میں سکھ کمیونٹی کے سرکردہ رکن ہیں جو 30 سال پہلے کینیڈا میں جا آباد ہوئے تھے اور کینیڈا میں میڈیا پر سکھ معاملات کے حوالے سے تجزیے بھی کرتے ہیں۔
کلدیپ سنگھ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’1903 کے بعد سے سکھوں کی کینیڈا امیگریشن جاری ہے لیکن گذشتہ کچھ دہائیوں سے کینیڈا میں انڈین شہریوں کے لیے روزگار کے مواقع اور یہاں پر اظہار رائے کی آزادی اتنی ہے کہ ہر کوئی کینیڈا آنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’چارٹر آف رائٹس کا ایک بل موجودہ وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے والد نے پاس کیا تھا، اور اس کے بعد کسی بھی امیگرینٹ کو وہی حقوق حاصل ہیں جو عام کینیڈین شہری کو حاصل ہوتے ہیں۔‘
کیا سکھوں کی آزادی پسند ’خالصتان تحریک‘ کو کینیڈا میں حمایت حاصل ہے، کیا اسی وجہ سے سکھ زیادہ تعداد میں کینیڈا آباد ہو رہے ہیں؟ جب یہ سوال ان سے کیا گیا تو کلدیپ سنگھ کا کہنا تھا کہ ’ایسا نہیں ہے کیونکہ یہاں پر کسی بھی مذہب، جنس اور مسلک کو اظہار رائے ہے کہ وہ قانون کے مطابق کسی بھی مظاہرے اور تحریک میں حصہ لے سکیں۔‘
’یہاں کسی بھی شخص کی آزادی اظہار رائے غصب نہیں کی جاتی جبکہ یہ سب انڈیا سمیت پاکستان میں بہت کم دیکھا گیا ہے تو اسی وجہ سے جنوبی ایشیا کے لوگ کینیڈا آنے کو ترجیح دیتے ہیں، اور یہاں روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہیں۔‘
1903 کے بعد سے سکھوں کی کینیڈا آمد
یہ 1903 کی بات ہے جب سکھوں نے ہانگ کانگ میں برطانوی انڈین فوجیوں سے کینیڈا کے بارے میں سنا۔ ایک سال پہلے یہ فوجی ایڈورڈ دوم کی تاج پوشی کی رسومات میں حصہ لینے براستہ کینیڈا ہانگ کانگ گئے تھے۔
کینیڈا کی تاریخ پر مبنی سرکاری ویب سائٹ ’دی انسائیکلوپیڈیا آف کینیڈا‘ کے مطابق یہ نام سکھوں کی ذہن میں بیٹھ گیا اور انہوں نے کینیڈا آنا جانا شروع کر دیا۔
انسائیکلوپیڈیا کے مطابق ’برطانوی انڈین فوجیوں سے کینیڈا کے بارے میں سننے کے بعد جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے پانچ ہزار سے زائد امیگرنٹس 1908 تک کینیڈا نقل مکانی کر چکے تھے۔ ان پانچ ہزار امیگرنٹس میں 90 فیصد کا تعلق سکھ مذہب سے تھا اور زیادہ تر موجودہ انڈیا کے صوبہ پنجاب سے تھے اور یہ سب کینیڈا کے علاقے برٹش کولمبیا میں جا کر آباد ہوئے۔‘
اس کے بعد کینیڈا میں انڈیا کے لوگوں کا جانا اور وہاں پر مستقل طور پر رہائش اختیار کرنا ایک عام سی بات بن گئی۔
تقسیم ہند کے بعد کیا ہوا؟
کینییڈا کے صوبے برٹش کولمبیا میں مقیم سکھ اور انڈین امیگرنٹس کو 1947 میں ووٹ کا حق مل گیا اور تقسیم ہند کے بعد کینیڈا نے پاکستان اور انڈیا کے لیے باقاعدہ امیگرنٹس کوٹا مقرر کیا۔
کلدیپ سنگھ کے مطابق اس وقت کینیڈا کی حکومت نے انڈیا کے سالانہ 150 امیگرینٹس اور پاکستان کے لیے 100 امیگرینٹس کا کوٹا مقرر کیا تھا۔
ویب سائٹ انسائیکلوپیڈیا آف کینیڈا کے مطابق اس وقت جنوبی ایشیا کے امیگرنٹس کی تعداد دو ہزار سے تجاز کر گئی تھی۔ 1961 تک یہ تعداد چھ ہزار سے زائد، 1971 میں 67 ہزار سے زائد جبکہ 2011 تک یہ تعداد 15 لاکھ سے تجاوز کر گئی تھی۔ ان میں سب سے زیادہ تعداد سکھ امیگرنٹس کی تھی۔
کلدیپ سنگھ کے مطابق ’2021 کی مردم شماری میں سکھوں کی آبادی سات لاکھ سامنے آئی اور یہ کینیڈا کی مجموعی آبادی کا 2.1 فیصد ہے، جبکہ سالانہ بنیاد پر ایک لاکھ تک سکھ طلبہ، جن میں زیاہ تر کا تعلق انڈین پنجاب سے ہے، کینیڈا میں تعلیم کی غرض سے آتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’برطانیہ کے بعد کینیڈا انڈین لوگوں کے لیے پسندیدہ ملک ہے۔‘
کینیڈا میں سکھوں کی سیاست
گورویندر سنگھ دھالیوال 1999 میں انڈیا سے کینیڈا منتقل ہوئے تھے۔ وہ سماجی کارکن اور ریئل سٹیٹ کے بزنس سے وابستہ ہیں۔ ریڈیو اور اخبارات پر سکھوں کے حقوق سے متعلق آگاہی کے حوالے سے انہیں جانا جاتا ہے۔
گورویندر سنگھ دھالیوال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’1907 میں جب سکھ کینیڈا شفٹ ہونا شروع ہو گئے تو اس وقت ان کو ووٹ کا حق دیا گیا تھا لیکن بعد میں سکھوں کی جانب سے جب حقوق کے نعرے بلند کیے گئے تو کینیڈا میں ان سے ووٹ کا حق چھین لیا گیا۔ 1947 میں پہلی مرتبہ ان کو ووٹ کا حق مل گیا اور 1952 میں نیریجن سنگھ نامی شخص پہلی مرتبہ برٹش کولمبیا میں ایک سٹی کے میئر بنے۔ تب سے اب تک سکھ کینیڈا کی سیاست میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔‘
’اس کے بعد 1980 میں من موہن سنگھ سہوتہ پہلی مرتبہ برٹش کولمبیا میں صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور صوبائی اسمبلی کی سطح پر سکھوں کی پہلی نمائندگی تھی، جبکہ اس کے چند سالوں بعد صوبائی اور وفاقی سطح پر سکھ کینیڈا میں وفاقی وزیر بھی رہے۔‘
گورویندر سنگھ کے مطابق ’موجودہ وفاقی کابینہ میں ہرجیت سنگھ سجن اور بلدیپ کور وفاقی کابینہ کا حصہ ہیں جبکہ بعض ایسوسی ایٹ وزرا اور صوبائی وزرا بھی سکھ کمیونٹی سے ہیں۔‘
’اسمبلی کے منتخب سکھ اراکین پالیسی لیول کے فیصلوں میں بھی حصہ لیتے ہیں اور 1980 میں پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کے رکن نے پنجابی زبان کو کینیڈا کی سیکنڈری لینگوئج کا درجہ دیا تھا اور اس وقت وہ وزیر تعلیم تھے۔‘
’برٹش کولمبیا میں صوبائی اسمبلی کے وزیر تعلیم اور وزیر محنت اب بھی سکھ کمیونٹی سے ہی ہیں، جبکہ اسمبلی کے سپیکر بھی سکھ ہیں جن کا نام راجپال چوہان ہے۔‘
کینیڈا میں تین بڑی سیاسی جماعتیں ہے جن میں سے ایک جسٹن ٹروڈو کی جماعت لبرل پارٹی ہے، ایک نیو ڈیموکریٹک پارٹی جبکہ تیسری جماعت کنزرویٹیو ہے، جو اب حزب اختلاف کی جماعت ہے۔ لبرل اور نیو ڈیموکریٹک جماعتیں حکومتی اتحاد میں ہیں۔
گروویندر سنگھ کے مطابق ’وفاق میں نیو ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ بھی سکھ ہیں جن کا نام سردار جگمیت سنگھ ہے اور یوں سمجھیے کہ وہ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے بعد اہم حکومتی عہدے پر ہیں اور ٹروڈو کی جماعت کا ان کی جماعت کے ساتھ سیاسی اتحاد ہے۔‘
’سیاست کی بات کی جائے تو جسٹن ٹروڈو کی جماعت لبرل پارٹی کینیڈا کی اقلیتوں میں بہت پاپولر ہے کیونکہ اس جماعت کو اقلیتوں کی جماعت سمجھا جاتا ہے اور یہ جسٹن ٹروڈو کے والد ہی تھے جنہوں نے اقلیتوں کو ووٹ کا حق دیا، بعد میں ایک چارٹر آف ہیومن رائٹس بھی انہوں نے پاس کیا تھا جس میں اقلیتوں کی حقوق کی بات کی گئی تھی۔‘
خالصتان تحریک اور کینیڈا؟
کلدیپ سنگھ کے مطابق ’کینیڈا میں خالصتان تحریک ایسی ہی جیسے کسی بھی ملک میں تحریکیں اٹھی ہوں، لیکن یہاں اس تحریک کے حامی ہیں تو مخالفین بھی موجود ہیں۔ رواں ماہ نو تاریخ کو خالصتان تحریک کی جانب سے ریفرنڈم بھی کرایا گیا ہے۔‘
کلدیپ سنگھ کے مطابق ’نیویارک میں سکھ فار جسٹس نامی تنظیم کے بانی گورپاتونت سنگھ جو بنیادی طور ایک وکیل ہیں، ان کی جانب سے خالصتان کی تحریک کو آگے لایا جا رہا ہے اور یہ تنظیم امریکہ میں ابھرنے کے بعد کینیڈا پہنچی ہے۔‘
کلدیپ کے مطابق وکیل ہونے کی وجہ سے ’گورپاتونت نے 1980 میں انڈیا میں سکھ کمیونٹی کے لوگوں کے قتل کا مقدمہ مختلف عدالتوں میں لڑنے کی کوشش بھی کی ہے لیکن ان کا مقدمہ نہیں سنا گیا۔‘
کلدیپ سے پوچھا گیا کہ ہردیپ سنگھ کے قتل کے بعد سکھ کمیونٹی میں کوئی خوف تو نہیں ہے؟ اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’بظاہر تو ایسا کچھ نظر نہیں آرہا ہے۔‘
خالصتان کا مطلب کیا ہے؟
خالصتان (خالصہ یعنی صاف) سکھوں کا ایک سیاسی نعرہ ہے جو انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق 1699 میں سکھوں کے مذہبی پیشوا گورو گوبند سنگھ نے سکھوں کو دیا تھا اور ان کا عقیدہ تھا کہ ’خدا کی جانب سے یہ حق سکھوں کے دیا گیا ہے کہ وہ پنجاب پر حکمرانی کریں۔‘
’اسی نعرے کے پیش نظر 1716 میں سکھوں کے رہنما باندا سنگھ بہادر کی قیادت میں سکھ فورسز نے مغل دور میں اہم علاقہ سرہند فتح کیا تھا اور دہلی اور لاہور کے مابین مخلص پور کے نام سے دارالخلافہ قائم کیا تھا لیکن کئی دہائیوں بعد 1849 میں سکھوں کی حکمرانی ختم ہوگئی اور برطانیہ نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تقسیم ہند کے دوران 1947 میں پنجاب کے سکھوں نے دوبارہ ایک الگ ریاست کی بنیاد کا مطالبہ کیا تھا تاہم سکھوں کی کم آبادی کی وجہ سے ان کے مطالبے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور یہ مطالبہ مختلف مواقع پر بعد میں سامنے آیا۔
1970 اور80 کی دہائی میں یہ مطالبہ شدت اختیار کر گیا اور الگ ریاست کے مطالبے پر سکھوں نے پر تشدد مظاہروں کا آغاز کیا جس میں آل انڈیا سکھ سٹوڈنٹس تنظیم پیش پیش تھی۔ یہ تحریک 1984 میں زیادہ پر تشدد تب ہوئی جب 1984 میں گولڈن ٹیمپل پر مسلح سکھ جمع ہو گئے اور اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے کمپلیکس پر حملہ کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ سکھ کمیونٹی کے مطابق اس حملے میں تین ہزار تک سکھ مارے گئے تھے۔
خالصتان تحریک پر انڈیا میں پابندی ہے اور ان کے رہنماؤں کو مختلف دہشت گرد لسٹوں میں بھی شامل کیا گیا ہے۔
سماجی کارکن گروویندر سے جب پوچھا گیا کہ کیا خالصتان تحریک کا کینیڈا کی سیاست میں کوئی کردار ہے، تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’خالصتان تحریک کو کسی بڑی سیاسی جماعت کی طرف سے حمایت حاصل نہیں ہے تاہم کینیڈا میں اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے۔‘
’جسٹن ٹروڈو نے اب ہردیپ سنگھ کی قتل کے ملزمان کی بات کی ہے تو سکھ گرودواروں کی جانب سے انہیں بہت پذیرائی ملی ہے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ جب آپ کے حق کے لیے کوئی بولتا ہے تو دوسری جانب سے بھی حمایت حاصل ہوتی ہے۔‘