ماسکو فارمیٹ کنسلٹیشنز فورم کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور علاقے کے دوسرے ملکوں نے افغان حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ملک میں موجود عسکری گروہوں کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔
عرب نیوز کے مطابق ماسکو فارمیٹ مشاورت کا آغاز 2016 میں کیا ہوا جس کا مقصد سابق افغان صدر اشرف غنی کی اس وقت کی حکومت اور طالبان کے درمیان سیاسی مفاہمت کو فروغ دینا تھا جو ملک میں افغان سکیورٹی فورسز اور امریکہ کی زیر قیادت افواج کے خلاف جنگ کر رہے تھے۔
اس فارمیٹ کا پانچواں اجلاس روس کے شہر قازان میں ہوا جس میں چین، انڈیا، ایران، قازقستان، کرغزستان، پاکستان، روس، ترکمانستان اور ازبکستان کے خصوصی نمائندوں اور اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔
افغانستان کی جانب سے افغانستان کے قائم مقام وزیر اس خارجہ اجلاس میں شریک ہوئے۔ سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات اور ترکی کے نمائندے بھی مہمان خصوصی تھے۔
ماسکو فارمیٹ کے بیان کے مطابق اس گروپ نے افغانستان کے کچھ اہم ترین مسائل جیسے عسکریت پسندی، شمولیتی حکومت کی تشکیل اور ملک میں خواتین اور اقلیتوں کی آزادی پر تبادلہ خیال کیا۔
بیان کے مطابق: ’تمام فریقین نے اس موقعے پر موجود افغان حکام پر زور دیا کہ وہ افغانستان میں ہر قسم کے دہشت گرد گروپوں کو توڑنے، ختم کرنے اور ان کی موجودگی کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔‘
’اور ملک کو دہشت گردی اور عدم استحکام کا مرکز بننے اور ان کے علاقائی ملکوں تک پھیلنے سے روکا جائے۔‘
ماسکو فارمیٹ کے بیان کے مطابق فورم کے شرکا نے افغانستان پر زور دیا کہ وہ ملک سے پھیلنے والی عسکریت پسندی اور منشیات کی سمگلنگ کے خلاف جنگ میں علاقائی ممالک کے ساتھ تعاون بڑھائے۔
ماسکو فارمیٹ کے بیان کے مطابق فورم کا کہنا تھا کہ افغانستان میں جامع حکومت کی تشکیل میں ’کوئی پیش رفت‘ نہیں ہوئی ہے جو ملک میں تمام نسلی اور سیاسی گروپوں کے مفادات کی عکاسی کرے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماسکو فارمیٹ کے بیان کے مطابق فورم نے افغانستان کی عبوری حکومت پر زور دیا کہ وہ متبادل نسلی سیاسی گروپوں کے نمائندوں کے ساتھ عملاً نتیجہ خیز مذاکرات‘ شروع کرے۔
ماسکو فارمیٹ کے بیان کے مطابق ماسکو فارمیٹ کنسلٹیشنز نے افغان حکام پر زور دیا کہ وہ افغانستان میں متوازن، زیادہ وسیع بنیاد، جامع، جوابدہ اور ذمہ دار حکومت قائم کریں۔
بیان کے مطابق فورم افغانستان کی حکومت پر زور دیا کہ وہ صنف اور مذہب کے حوالے سے امتیاز ی سلوک سے قطع نظر روزگار اور تعلیم کے مساوی مواقع فراہم کرے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’فورم کے شرکا نے خواتین کے روزگار اور لڑکیوں کی تعلیم پر عائد پابندیوں پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے افغان حکام پر زور دیا کہ وہ سکولوں میں بین الاقوامی معیار کے مطابق جدید تعلیم کو فروغ دیں۔
اگست 2021 میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کشیدہ چلے آ رہے ہیں۔
پاکستان کے مغربی علاقوں، خاص طور پر افغانستان کی سرحد سے متصل علاقوں میں حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس کا الزام اسلام آباد افغانستان میں موجود عسکریت پسندوں پر عائد کرتا ہے۔
افغانستان اس بات سے انکار کرتا ہے کہ عسکریت پسند اس کی سرزمین دوسرے ممالک کے خلاف حملوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔