’سلام افغانستان‘: سابق افغان اینکر کی وطن واپسی پر مختلف آرا

افغانستان میں سابق صدر اشرف غنی کی حکومت میں سرکاری چینل ریڈیو ٹیلی ویژن نیٹ ورک کی سپورٹس نشریات کی اینکر ڈیوہ پتنگ طالبان کی حکومت آنے کے بعد پہلی مرتبہ ملک واپس آئی ہیں، جن کی ویڈیوز اور تصاویر پر سوشل میڈیا پر مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔

 ڈیوہ پتنگ نے افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد پہلی بار اپنے ملک کا دورہ کیا ہے (ڈیوہ پتنگ ایکس اکاؤنٹ)

افغانستان میں سابق صدر اشرف غنی کی حکومت میں سرکاری چینل ریڈیو ٹیلی ویژن نیٹ ورک کی سپورٹس نشریات کی اینکر ڈیوہ پتنگ نے طالبان کی حکومت آنے کے بعد پہلی مرتبہ ملک کا سفر کیا ہے اور ان کی ویڈیوز اور تصاویر پر سوشل میڈیا پر مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔

افغانستان پہنچنے پر ڈیوہ پتنگ نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنی پہلی تصویر پوسٹ کی، جس میں ان کے ہاتھ میں ایک گلدستہ بھی نظر آرہا ہے۔ انہوں نے کیپشن لکھا: ’سلام افغانستان۔‘

انہوں نے افغانستان کی سڑکوں پر گاڑی چلاتے ہوئے اپنی ایک ویڈیو بھی ایکس پر پوسٹ کی، جس میں انہیں روایتی افغان لباس اور سر پر دوپٹہ پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔

ڈیوہ پتنگ کی اس ویڈیو پر ایکس کے صارف سعید اللہ ترکئی نے لکھا: ’خوشی ہو رہی ہے کہ آپ بغیر کسی روک ٹوک کے اپنے ملک میں گاڑی چلا رہی ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ وطن کی ہر بیٹی اور بچی آپ کی طرح آزادی سے اور آرام سے زندگی بسر کر سکے۔‘

تاہم کچھ صارفین کی جانب سے اس ویڈیو پر تنقید کرتے ہوئے اسے افغانستان میں ’زمینی حقائق کے برعکس‘ قرار دیا گیا۔

غزل شریفی نامی صارف نے لکھا: ’یہ ہمارے لیے کتنی افسوس کی بات ہے کہ ہم یہاں گاڑی خود نہیں چلا سکتے، نہ چہرہ کھلا رکھ سکتے ہیں اور نہ شوہر، بھائی یا والد کے بغیر گاڑی میں کسی غیر مرد کے ساتھ سفر کر سکتے ہیں لیکن آپ کو یہ اجازت دی گئی ہے۔‘

عطا اللہ خان نے کہا کہ ’افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی ہے اور شٹل کاک برقعے کے بغیر کسی کو باہر جانے کی اجازت نہیں ہے لیکن طالبان حکومت نے خود کو اچھا ثابت کرنے کے لیے ایک ماڈل لڑکی کو کچھ ویڈیوز بنانے کی اجازت دی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈیوہ پتنگ کی ویڈیوز پر بعض صارفین کی جانب سے سوالات بھی کیے گئے، جس کے جواب انہوں نے خود دیے۔

’وائس آف امریکہ‘ کی پشتو سروس دیوا کے ساتھ منسلک صحافی رحمان بونیری نے سوال کیا ہے کہ ’کیا افغان طالبان کی جانب سے حجاب اور خواتین پر سفری پابندی ختم ہوگئی یا وہ حکم صرف غریب خواتین کے لیے ہے۔‘

جس پر ڈیوہ پتنگ نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے سوالیہ انداز میں لکھا: ’حجاب اور سفری پابندی؟شاید آپ کی معلومات مکمل نہیں ہیں۔‘

انہوں نے مزید لکھا: ’رہی بات حجاب کی تو میں اپنے والد کے ساتھ گاڑی میں سفر کر رہی ہوں تو اس میں بے حجابی کی بات ہی ختم ہوگئی۔‘

افغان صحافی سمیع یوسفزئی نے ڈیوہ پتنگ کی افغانستان میں لی گئی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’افغانستان کے سفر سے لطف اٹھائیں اور اگر کوئی آپ کی شخصیت سے حاسد ہے تو ان کو چاہیے کہ ایک کپ قہوہ پی کر سٹریس دور کرے۔‘

ڈیوہ پتنگ نے افغانستان کے صوبے بامیان میں واقع بدھ مت کے آثار قدیمہ کا بھی دورہ کیا اور وہاں بچوں کے ساتھ بنائی گئی ویڈیو بھی ایکس پر پوسٹ کی۔

اسی ویڈیو پر ایک صارف نے سوال پوچھا: ’کیا بامیان میں بدھ مت کے آثار پر خواتین کے جانے پر پابندی نہیں ہے؟ تو اس کے جواب میں ڈیوہ نے لکھا کہ ’ایسی کوئی پابندی نہیں ہے اور ہر کوئی وہاں جا سکتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل