انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کرکٹ ورلڈ کپ کا میلہ سجنے میں اب بس ایک دن ہی رہ گیا ہے اور اس میلے کا آغاز وہیں سے ہو گا جہاں 2019 ورلڈ کپ کا اختتام ہوا تھا۔
انڈیا میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ کا پہلا میچ پانچ اکتوبر کو احمد آباد میں انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے درمیان کھیلا جائے گا۔ یہ دونوں وہی ٹیمیں ہیں جو 2019 کے ورلڈ کپ کے فائنل میں ٹکرائی تھیں۔
اس 13ویں ورلڈ کپ میں پاکستان اپنا پہلا میچ نیدرلینڈ کے خلاف چھ اکتوبر کو حیدرآباد میں کھیلے گا۔
ایشیا کپ میں مایوس کن کارکردگی کے بعد پاکستان ٹیم کے حوالے سے عجیب تجزیے کیے جا رہے ہیں اور شاید یہ پہلا موقع ہو گا جب پاکستان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس کی ’بولنگ تھوڑی کمزور ہے۔‘
ایسے تجزیوں کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو نسیم شاہ کا انجری کے باعث ورلڈ کپ سکواڈ میں شامل نہ ہونا ہے جبکہ دوسری وجہ سپنرز کا اس طرح سے پرفارم نہ کرنا ہے جیسے ماضی میں پاکستانی سپنرز کرتے رہے ہیں۔
لیکن پاکستان ٹیم اب بھی کچھ ایسے کھلاڑیوں کے ساتھ میدان میں اترے گی جو اسے کم از کم سیمی فائنل تک تو رسائی دلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
عالمی مقابلوں میں پاکستان اور سیمی فائنلز کا رشتہ ویسے بھی کافی مضبوط دکھائی دیتا ہے۔
چلیں پاکستان کی ماضی میں ہونے والے عالمی مقابلوں میں کارکردگی پر نظر ڈالتے ہیں جسے دیکھنے کے لیے ہمیں 1975 کھیلے گئے پہلے ورلڈ کپ سے شروع کرنا پڑے گا۔
پہلا ورلڈ کپ جون 1975 میں انگلینڈ میں کھیلا گیا جس میں کل آٹھ ٹیموں نے حصہ لیا جنہیں دو گروپس میں تقیسم کیا گیا تھا اور ماجد خان کی کپتانی میں کھیلنے والے پاکستان کو آسٹریلیا، ویسٹ انڈیز، اور سری لنکا کے ساتھ گروپ بی میں رکھا گیا تھا۔
پہلے ورلڈ کپ میں پاکستان صرف سری لنکا کے خلاف ہی میچ جیت پایا اور تین میں سے دو میچ ہار کر ٹورنامنٹ سے باہر ہو گیا۔
دوسرا ورلڈ کپ بھی جون کے مہینے میں ہی کھیلا گیا اور اس بار بھی میزبان ملک انگلینڈ ہی تھا۔ جون 1979 میں کھیلے جانے والے اس ورلڈ کپ میں پاکستان کی کپتانی آصف اقبال نے کی۔ پاکستان کو انگلینڈ، آسٹریلیا اور کینیڈا کے ساتھ گروپ اے میں رکھا گیا تھا۔
اس ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم پہلے کی نسبت بھرپور تیاری اور جذبے کے ساتھ میدان میں اتری اور سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
پاکستان کو سیمی فائنل میں اس وقت کی ’سب سے خطرناک‘ ٹیم ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اس کے بعد پاکستان ٹیم نے 1983 کے عالمی مقابلوں میں بھی شاندار کارکردگی دکھائی مگر یہاں بھی پاکستان ورلڈ کپ جیتنے میں کامیاب نہ ہو سکا تھا۔
جون 1983 میں کھیلے جانے والے تیسرے ورلڈ کپ میں پاکستان کے کپتان تو بدل گئے مگر سفر گذشتہ ورلڈ کپ جیسا ہی رہے گا۔
عمران خان کی قیادت میں کھیلنے والی پاکستان ٹیم اس ورلڈ کپ کے بھی سیمی فائنل تک تو پہنچنے میں کامیاب رہی مگر اس کا راستہ روکنے کے لیے ایک بار پھر ویسٹ انڈیز وہاں موجود تھا۔
یہ پاکستان کا عالمی مقابلوں میں لگاتار دوسرا سیمی فائنل تھا۔ سیمی فائنل میں اسے ایک بار پھر ویسٹ انڈیز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
چوتھے ورلڈ کپ میں پاکستان کا نہ تو کپتان بدلا تھا اور نہ ہی نتیجہ۔ جو چیز بدلی وہ تھی مقام، کیونکہ اس بار پاکستان اپنی ہی سرزمین پر کھیل رہا تھا۔
پاکستان کو 1987 کے ورلڈ کپ میں ایک بار پھر عمران خان ہی کی قیادت میں پھر سے سیمی فائنل میں ہی شکست ہوئی۔ یہ پاکستان کی مسلسل تیسری مرتبہ عالمی مقابلوں کے سیمی فائنل میں شکست تھی مگر اس بار ہرانے والی ٹیم ویسٹ انڈیز نہیں بلکہ آسٹریلیا تھی۔
لگاتار تین سیمی فائنل ہارنے کے بعد اب پاکستان کی باری تھی۔
جی ہاں یہ 1992 میں نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں کھیلے جانے والا ورلڈ کپ تھا جہاں پاکستان نے اپنے آٹھ میچوں میں سے تین ہارے، ایک بے نتیجہ رہا اور چار میں اسے فتح حاصل ہوئی جس میں سے ایک فائنل بھی شامل ہے۔
عمران خان ہی کی قیادت میں ورلڈ کپ کھیلنے والی اس پاکستانی ٹیم میں وسیم اکر، مشتاق احمد، انضمام الحق، رمیز راجہ، عاقب جاوید، عامر سہیل اور جاوید میانداد جیسے نام شامل تھے۔
پاکستان نے پہلے تو بار بار سیمی فائنل میں ہارنے کا سلسلہ نیوزی لینڈ کو سیمی فائنل میں شکست دے کر ختم کیا۔
یہ پاکستان کا پہلا ورلڈ کپ فائنل تھا جہاں اس کا سامنا انگلینڈ سے تھا۔
25 مارچ 1992 کو پاکستان نے انگلینڈ کے خلاف پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 50 اووروں میں 249 رنز بنائے۔ جواب میں انگلینڈ کی ٹیم وسیم اکرم کی شاندار بولنگ کی وجہ سے 227 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔
اس طرح 25 مارچ 1992 کا دن ہر پاکستانی کے لیے خاص بن گیا کیونکہ اس دن پاکستان ٹیم ورلڈ کپ ٹرافی کے ساتھ وطن لوٹی تھی۔
چار سال تک عالمی چیمپیئن رہنے کے بعد 1996 کے ورلڈ کپ میں پاکستان کوارٹر فائنل تک ہی اپنے ٹائٹل کا دفاع کرنے میں کامیاب رہا۔
بینگلور میں 11 مارچ 1996 کو کھیلے جانے والے اس کوارٹر فائنل میں پاکستان کو انڈیا کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
کرکٹ ورلڈ کپ کی تاریخ میں دو ایسے ورلڈ کپ ہیں جن میں سے ایک کو پاکستانی فینز کبھی بھولنا نہیں چاہتے اور دوسرا ایسا ہے جسے پاکستانی شاید کبھی یاد نہیں رکھنا چاہیں گے۔
ایک 1992 کا ورلڈ کپ ہے جسے کوئی بھی پاکستانی کبھی نہیں بھولنا چاہے گا اور دوسرا 1999 کا ورلڈ کپ ہے جسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ورلڈ کپ کے بارے میں یہ کہنا شاید غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان اس ورلڈ کپ کو جیتنے کے لیے پہلے میچ سے ہی فیورٹ تھی۔
وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے اس ورلڈ کپ میں پاکستان اپنے ابتدائی پانچ میں سے چار میچ جیت کر نہ صرف اپنے گروپ کی ٹاپ ٹیم بنی بلکہ سپر سکس مرحلے میں بھی پاکستان پانچ میں سے تین میچ جیت کر سرفہرست رہا۔
اس کے بعد پاکستان نے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کو شکست دے کر فائنل تک رسائی حاصل کی۔
پورے ٹورنامنٹ میں ایسی شاندار کارکردگی کے بعد فائنل میں فینز نے دوسری ٹرافی کی امیدیں لگا رکھی تھی جو کہ لگانی بنتی بھی تھیں۔
مگر فائنل میں پاکستان کی کارکردگی اتنی ہی مایوس کن ثابت ہوئی جتنی ٹورنامنٹ میں اچھی تھی۔
فائنل میں پاکستان کا مقابلہ آسٹریلیا سے تھا اور پاکستان ٹیم پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے صرف 132 رنز پر ہی ڈھیر ہو گئی۔
اس کے بعد پاکستان ٹیم نے 2003 اور 2007 کے عالمی مقابلوں میں گروپ مرحلے سے آگے کوالیفائی ہی نہیں کیا تھا۔
پھر عالمی مقابلوں کا انعقاد انڈیا میں ہوا جہاں پاکستان نے ورلڈ کپ میں ایک بار پھر عمدہ واپسی کی۔
انڈیا کے میدانوں پر 2011 میں ہونے والے ورلڈ کپ میں پاکستان نے چوتھی مرتبہ سیمی فائنل کھیلا مگر فائنل کے لیے کوالیفائی نہ کر سکا۔
موہالی میں 30 مارچ 2011 کو کھیلے جانے والے سیمی فائنل میچ میں پاکستان کا مقابلہ انڈیا سے تھا۔ پاکستان کی کپتانی شاہد آفریدی کر رہے تھے جبکہ انڈیا کے کپتان مہیندر سنگھ دھونی تھے۔
اس میچ میں پاکستان 260 رنز کے جواب میں 231 رنز ہی بنا سکا تھا۔
اس کے بعد 2015 میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں عالمی میلہ سجا جہاں پاکستان ٹیم کی قیادت اس بار مصباح الحق کر رہے تھے۔
اس ورلڈ کپ میں بھی پاکستان کی کارکردگی قدرے بہتر رہی تاہم وہ سیمی فائنل تک رسائی نہ حاصل کر سکا اور کوارٹر فائنل میں ہار کر ٹورنامنٹ سے باہر ہو گیا۔
کوارٹر فائنل میں پاکستان کا مقابلہ آسٹریلیا سے تھا اور یہ وہی میچ ہے جس میں فاسٹ بولر وہاب ریاض نے تیز اور ’خطرناک‘ سپیل کروایا تھا اور انہی کی گیند پر ایک ایسے وقت میں کیچ ڈراپ ہوا تھا جہاں سے پاکستان میچ کو اپنی گرفت میں کر سکتا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چار سال بعد یعنی 2019 میں ہونے والے ورلڈ کپ میں پاکستان کی کارکردگی کچھ زیادہ بری نہیں تھی۔
پاکستان اپنے ابتدائی نو میچوں میں سے پانچ جیتنے میں کامیاب رہا جبکہ اسے تین میچوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ایک میچ بے نتیجہ رہا۔
پاکستان کو اپنے پہلے ہی میچ میں ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں انتہائی بری شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور یہ ایک ہار اسے ٹورنامنٹ سے باہر کرنے کے لیے کافی ثابت ہوئی۔
ویسٹ انڈیز کے خلاف شکست سے اس کا رن ریٹ انتہائی گر گیا تھا جس کی وجہ سے نیوزی لینڈ بہتر رن ریٹ پر نہ صرف آگے کوالیفائی کر گیا بلکہ فائنل تک پہنچنے میں کامیاب رہا۔
پاکستان کی طرف سے 2019 کے ورلڈ کپ میں کھیلنے والوں میں بابر اعظم، فخر زمان، امام الحق، شاداب خان اور شاہین آفریدی شامل ہیں جو کہ اس بار یعنی ایک روز بعد شروع ہونے والے ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم کی ریڑھ کی ہڈی کے طور پر میدان میں اتریں گے۔
بس اب دیکھنا یہ ہے کہ چار بار سیمی فائنل، دو بار کوارٹر فائنل، ایک بار فائنل ہارنے اور ایک بار فائنل جیتنے والا پاکستان 2023 کے ورلڈ کپ میں کہا تک پہنچنے میں کامیاب ہوتا ہے۔