حالیہ برسوں میں ون ڈے کرکٹ کی چمک بھلے ہی مدہم ہو گئی ہو لیکن 50 اوورز کا ورلڈ کپ کا اب بھی کرکٹ کا سب سے باوقار ٹائٹل ہے۔
جمعرات کو انڈیا میں شروع ہونے والے تازہ ترین ایونٹ سے قبل پی اے نیوز ایجنسی اس بات پر نظر ڈال رہی ہے کہ کون سے موضوعات زیر بحث ہیں۔
ایک روزہ کرکٹ میں کم ہوتی دلچسپی کے باوجود ورلڈ کپ اہم ہے
پے در پے ٹی 20 فرینچائز لیگز کی آمد سے اس درمیانے فارمیٹ پر مسلسل دباؤ پڑ رہا ہے جو اس سے قبل کبھی نہیں ہوا تھا۔
آسٹریلیا کے سابق کپتان این چیپل نے گذشتہ ہفتے ٹی 20 کے حق میں ون ڈے کو نظر انداز کرنے پر منتظمین کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
جبکہ انڈیا کے عظیم بلے باز سچن تندولکر نے رواں سال کے اوائل میں کہا تھا کہ 50 اوورز کا فارمیٹ ’بورنگ‘ اور ’ قابل پیش گوئی‘ ہوتا جا رہا ہے۔
دو طرفہ ون ڈے سیریز کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے لیکن اس کے برعکس ورلڈ کپ اس کا تاج ہے۔
جس کا ثبوت یہ ہے کہ انگلینڈ کے بین سٹوکس نے اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان اس ورلڈ کپ میں فتح کی ایک اور کوشش کے بعد کرنا ہے۔
ویسٹ انڈیز نہیں تو پارٹی بھی نہیں
اس سال کیریبین جشن کی بھی واضح کمی ہو گی کیونکہ 1975 اور 1979 کے پہلے دو ٹورنامنٹس کی فاتح ویسٹ انڈیز کی ٹیم کوالیفائی نہیں کر سکی۔
مکمل رکن ممالک زمبابوے اور آئرلینڈ بھی باہر ہیں لیکن سب سے زیادہ عدم موجودگی ویسٹ انڈیز کی محسوس کی جائے گی۔
2021-23 ورلڈ کپ سپر لیگ اور پھر جون میں ایک الگ کوالیفائنگ ٹورنامنٹ میں ناکامی کے بعد ان پر اس عدم موجودگی کی بہت زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
لیکن جہاں دیگر کھیل بہتری کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اپنے عالمی مقابلوں کو وسعت دیتے ہیں، وہیں کرکٹ اپنے آخری دو ایڈیشنز میں 10 ٹیموں کے ورلڈ کپ تک سکڑ گئی ہے۔
2027 سے 14 ٹیموں کے سیٹ اپ میں واپسی کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
انگلینڈ کے لیے دوسرا موقع؟
انگلینڈ چار سال پہلے کم ترین مارجن سے فاتح رہا تھا، اگرچہ باؤنڈری گننے کے اصول کو ختم کردیا گیا ہے اور اب کسی ٹیم کی فتح تک مزید سپر اوورز جاری رہیں گے۔
اوئن مورگن کے مستعفی ہونے کے باوجود جوز بٹلر کی کپتانی میں 2022 کے ٹی 20 ورلڈ کپ میں ایک اور فتح حاصل کی جس کا مطلب ہے کہ انگلینڈ پر پریشر ہو گا۔
انہوں نے 2019 کی ٹرافی جیتنے والی ٹیم کے آٹھ کھلاڑیوں سمیت جوفرا آرچر کو ٹریول ریزرو کے طور پر ٹیم میں شامل کیا ہے۔
جبکہ کچھ حلقوں میں اوسطاً 31.4 کی اوسط عمر کی وجہ سے انہیں ’ڈیڈز آرمی‘ کا نام دیا گیا ہے۔
تاہم تجربہ شاذ و نادر ہی بری چیز ہوتی ہے اور اگر انگلینڈ اپنا تاج برقرار رکھتا ہے تو اس سے یہ تاریخ کی سب سے بڑی وائٹ بال سائیڈز میں سے ایک بن جائے گی۔
انڈیا بمقابلہ پاکستان
ٹورنامنٹ کا شاندار موقع (انڈیا بمقابلہ پاکستان) جس کے ساتھ ایک ارب ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی بھاری ٹیگ لائن ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کشیدہ تعلقات کے باعث 2013 کے بعد سے دونوں چونکہ کسی دو طرفہ میچ میں مدمقابل نہیں آئے، لہذا ان کے درمیان اب کوئی بھی میچ زیادہ اہمیت اختیار کر جائے گا۔
گذشتہ سال ٹی 20 ورلڈ کپ میں ویرات کوہلی نے ایم سی جی میں 90 ہزار جذباتی شائقین کے سامنے انڈیا کو جیت دلانے کے لیے اپنی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔
گو کہ کہا جاتا ہے کہ کھلاڑی ایک دوسرے کے دوست ہیں تاہم پاکستان کو اس ہفتے کے شروع میں اپنے ویزے حاصل کرنے سے قبل تاخیر کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے انہیں دبئی کا ایک دورہ منسوخ کرنا پڑا۔
اب وہ انڈیا پہنچ چکے ہیں۔ کیا پاکستان 14 اکتوبر کو احمد آباد میں ہونے والا میچ جیت کر یہ مزہ کرکرا کر پائے گا؟
فاسٹ بولرز جن کی کمی محسوس ہو گی
انڈیا اور مجموعی طور پر برصغیر تاریخی طور پر تیز گیند بازوں کے لیے ایک خوش گوار شکار گاہ نہیں ہے لیکن پچز اور کنڈیشنز ہر قسم کے گیند بازوں کو اپنی کارکردگی دکھانے کا موقع فراہم کریں گی۔
تاہم جنوبی افریقا کے اینرک تورتیا اور سیسندا مگالا، پاکستان کے نسیم شاہ اور سری لنکا کے دشمنتھا چمیرا وہ ہائی پروفائل فاسٹ بولرز ہیں جو اس میں شامل نہیں ہوں گے۔
اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ انگلینڈ کے سپر اوور ہیرو آرچر کو کسی بھی میچ میں موقع ملے گا جبکہ ٹیم کے ساتھی مارک ووڈ نے جولائی کے بعد سے بولنگ نہیں کی ہے۔
انڈیا کے جسپریت بمرا بھی ایک سال کے بعد اپنی بہترین کارکردگی کی جانب لوٹ رہے ہیں۔
ساڑھے چھ ہفتوں تک جاری رہنے والی اس مہم کے دوران کسی نہ کسی مرحلے پر بے چینی، انجری اور رکاوٹوں کا آنا یقینی ہے اور شریک ممالک کو طویل سفری مصروفیات کے درمیان اپنی حفاظت کرنا ہو گی جو جسم اور دماغ میں کھینچاؤ لا سکتی ہیں۔