گذشتہ دو ماہ میں لاہور سے دو ایسے گروہ گرفتار کیے گئے جو گردوں کی غیر قانونی پیوند کاری میں ملوث تھے اور مریضوں سے لاکھوں روپے لے کر غیر قانونی طور پر مختلف گھروں کے اندر گردوں کی پیوند کاری کا کام سرانجام دیتے تھے۔
گردوں کی غیر قانونی پیوند کاری نئی بات نہیں بلکہ ایک لمبے عرصے سے ایسے گروہ کام کر رہے ہیں، یہ پکڑے بھی جاتے ہیں لیکن یہ کام پھر بھی چلتا آ رہا ہے۔
پہلے اگست کے مہینے میں لاہور سے ایک گروہ پکڑا گیا جو غیر ملکی باشندوں کے گردوں کی پیوند کاری میں ملوث تھا، جبکہ چند روز پہلے ایک اور گرو پکڑا گیا جس کے حوالے سے نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے اپنی پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ اس گروہ کا سرغنہ ڈاکٹر فواد مختار اب تک پانچ مرتبہ اسی غیر قانونی کام کی وجہ سے پکڑا جا چکا ہے۔
محسن نقوی نے بتایا کہ یہ گروہ گردوں کے 328 غیر قانونی آپریشن کر چکا تھا۔ ڈاکٹر فواد کے ساتھ اسسٹنٹ کے طور پر آپریشن کرنے والا بنیادی طور پر موٹر مکینک تھا جو کہ مریضوں کو بےہوش کرنے کا کام بھی کرتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ یہ گینگ لاہور، ٹیکسلا اور آزاد کشمیر میں زیادہ متحرک تھا، آپریشن تھیئٹر کی بجائے گھروں میں گردوں کا آپریشن کیا جاتا تھا۔
محسن نقوی نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ یہ گروہ پاکستانی مریضوں سے 30 لاکھ روپے جبکہ بیرون ملک سے آنے والے مریضوں سے گردوں کی پیوند کاری کے ایک کروڑ روپے لیتے تھے۔
نگراں وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ یہ گروہ گردوں کے 328 آپریشن کا اعتراف کر چکا ہے جبکہ تین مریضوں کی اس دوران جان بھی گئی۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے کہا کہ ڈاکٹر فواد مختار اور اس کے گینگ کے تمام افراد پکڑے جا چکے ہیں۔
ان کے مطابق فواد مختار نے غیر قانونی طور پر چوری کر کے، دھوکہ دہی سے یا پیسے دے کر سیکڑوں افراد کے گردے نکالے اور پیوند کاری کی۔
محسن نقوی نے یہ بھی کہا کہ چیف سیکریٹری پنجاب اور ان کی ٹیم کام کر رہی ہے، استغاثہ کو ہدایت کی گئی کہ مضبوط چالان پیش کیا جائے۔
محسن نقوی کا کہنا تھا ہیلتھ کیئر کمیشن کو پوری طرح فعال ہونا ہو گا، قانون موجود ہے، ہمارے پاس تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے تاہم جس حد تک ممکن ہوا قانون کو مزید موثر بنائیں گے۔ قانون کی موجودگی میں عمل کی ضرورت ہے۔ کیس کو ایف آئی اے کے سپرد کرنے کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نگراں وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ پنجاب ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی (پی ہوٹا) میں لوگوں کو خواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اس لیے پی ہوٹا (Punjab Human Organ Transplantation Authority) کو ون ونڈو کرنے کی تجویز کا جائزہ لیں گے۔
گردوں کی پیوند کاری کرنے والے گروہوں کا طریقۂ واردات
اس بارے میں پنجاب کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ میں کڈنی ٹرانسپلانٹ کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر ندیم بن نصرت نے انڈُپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’جب پنجاب ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی جیسی ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ کی کوئی ریگولیٹری باڈی نہیں بنی تھی تب تک ڈائنیمکس اور تھے۔ اب چونکہ قوانین بن گئے تو وہی چیز ان قوانین کے تحت پہلے قانونی تھی اب غیر قانونی ہو گئی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ پہلے یوں ہوتا تھا کہ کوئی بھی شخص اپنی خوشی سے، مرضی سے دستخط کر کے پیسے کے عوض بھی اپنا گردہ دیتا تھا تو قانون اسے روک نہیں سکتا تھا۔ ’اب چونکہ قانون بن گیا ہے تو کوئی شخص اپنی مرضی سے بھی گردہ نہیں بیچ سکتا۔ اس وقت اگر کوئی یہ کام کر رہا ہے تو وہ غیر قانونی ہے۔‘
ڈاکٹر ندیم بن نصرت کے مطابق اس طرح کی کس بھی قسم کی غیر قانونی سرگرمی کی اجازت کوئی ہسپتال نہیں دے سکتا کیونکہ ایسا کرنے سے ہسپتال بند ہو جائے گا۔
’اس لیے یہ غیر قانونی عمل کرنے والے بجائے ہسپتالوں کے کسی فارم ہاؤس یا گھر میں جا کر گردوں کی پیوند کاری کا عمل سرانجام دیتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس عمل میں دو تین لوگ ملوث ہوتے ہیں ایک شخص وہ ہوتا ہے جو تمام ٹیسٹ کروا رہا ہوتا ہے۔ ’یہ شخص کسی بھی میڈٰیکل سٹور کا فارماسسٹ ہوتا ہے یا غیر سند یافتہ فارماسسٹ ہوتا ہے یا لیبارٹری چلانے والا کوئی شخص ہوتا ہے۔ ان کا پورا ایک نیٹ ورک بنا ہوتا ہے، عموماً یہ جو ٹیسٹ کرتے ہیں مریضوں کے یہ دیکھنے کے لیے کہ کون کس سے میچ کر رہا ہے، جس میں خون کے نمونے، خون کے گروپ کے ٹیسٹ، پیشاب کے ٹیسٹ یا ٹشو ٹائپنگ، ٹشو میچنگ یہ تمام ٹیسٹ لیبارٹری میں ہونے ہیں، ان لوگوں نے اپنی لیبارٹریاں کھولی ہوتی ہیں وہاں سے یہ ٹیسٹ کرتے ہیں جو صحیح بھی ہوتے ہیں اور غلط بھی۔‘
ان کے مطابق 'اس کے بعد پھر یہ ان لوگوں تک پہنچتے ہیں جو ٹرانسپلانٹ کرتے ہیں یا آپریشن کر سکتے ہیں اور انہیں ایک بہت بڑی رقم کا لالچ دیتے ہیں۔‘
ڈاکٹر ندیم بن نصرت کہتے ہیں کہ یہاں وہ شخص جس کی آمدن ماہانہ ایک ڈیڑھ لاکھ روپے ہے اس کو ایک بڑی رقم بیٹھے بٹھائے مل جائے اور اس کی مہارت یہ ہے کہ وہ ایک بندے سے گردہ نکال کر دوسرے میں لگا سکتا ہے تو اسے کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟
انہوں نے بتایا کہ ’اس سرجن کے ساتھ ان کی ٹیم بن جاتی ہے اور وہ ان کے لیے مریض کو بےہوش کرنے والے ڈاکٹر کا انتظام بھی کر دیتا ہے۔‘
ان کے مطابق غیر قانونی گردے کی پیوند کاری میں ملوث لوگوں نے اپنا ایک چھوٹا ٹرک رکھا ہوتا ہے جس میں پیوند کاری کے عمل کو انجام دینے کے لیے ضروری سامان بہت آسانی سے آ جاتا ہے جس میں آکسیجن سیلنڈر، بے ہوش کرنے والی گیسز بھی آ جاتی ہیں اور یہ ایک طرح کی ان کے پاس ایک چھوٹی سی ایمبولینس ہوتی ہے۔
’یہ ٹرک وہ کسی گھر لے جاتے ہیں اور سامان گھر کے کسی کمرے میں رکھتے ہیں، مریض کو بےہوش کر کے آپریشن کرتے ہیں اور قصہ ختم اور مریض کی صحت بحال ہونے کے بعد اسے اسی ایمبولینس میں گھر چھوڑ آتے ہیں۔‘
ڈاکٹر ندیم نصرت کے مطابق ’اگر چھاپہ نہ پڑے اور یہ لوگ پکڑے نہ جائیں تو یہ سارا عمل چھ سے دس گھنٹے میں مکمل ہو جاتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیا مریض کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کام غیر قانونی ہے؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر ندیم نصرت کا کہنا تھا: ’مریض کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ غیر قانونی کام کر رہا ہے۔ قانون کہتا ہے کہ گردہ کسی رشتے دار کا ہی ہونا چاہیے جیسے، والدین، بہن بھائی یا اولاد یا بیوی یا فرسٹ سیکنڈ کزن۔ لیکن اگر آپ کو اپنا میچ کسی رشتے دار سے نہیں مل رہا تو آپ اپنی بلڈ لائن سے باہر نکلیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جب بلڈ لائن سے باہر جا کر گردہ ڈھونڈتے ہیں تو یہ لوگ غریب لوگوں تک پہنچتے ہیں اور انہیں دس بیس لاکھ روپے کا لالچ دیتے ہیں۔ اب ایک گردے پر پوری زندگی گزر جاتی ہے اگر دوسرا گردہ صحت مند ہے۔ وہ شخص اپنا گردہ دینے پر راضی ہو جاتا ہے۔
یہ لوگ اس طرح پیسوں کے عوض گردہ خریدتے ہیں اور وہ مریض جو رشتے داروں کا گردہ نہیں لینا چاہتا یا اسے میچ نہیں مل رہا وہ پیسوں کے عوض گردہ خریدنے کو صحیح سمجھتا ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’عام طور پر اس کام میں ملوث مریض وہی ہوتے ہیں جو اتنا خرچ برداشت کر سکتے ہیں اور اس میں پیسہ بہت ہے، اس لیے اس میں ڈاکٹر کے لیے بھی لالچ ہوتا ہے اور جو گردہ بیچنے والا ہے اسے بھی پیسے مل رہے ہوتے ہیں اور لگوانے والے کی زندگی اور موت کا سوال ہوتا ہے۔‘
اس غیر قانونی دھندے کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے نگراں صوبائی وزیر برائے صحت ڈاکٹر جاوید اکرم سے بھی رابطہ کیا۔
ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا تھا: 'سب سے پہلے تو ایسے ڈاکٹر اور ان کے ساتھی جو اس کام میں ملوث ہیں ان کے خلاف دہشت گردی کے تحت مقدمات درج ہونے چاہیے۔ یہ لوگوں کو اغوا بھی کرتے ہیں۔ ہراسانی کرتے ہیں اور بعد میں بلیک میل بھی کرتے ہیں۔'
ان کا کہنا تھا کہ اس عمل میں جرم کی نوعیت بہت زیادہ ہے کیونکہ یہ بہت غیر معیاری جگہوں پر آپریشن کرتے ہیں۔ ’میرے خیال میں کسی کا گردہ چوری کرنا بھی دہشت گردی کے زمرے میں ہی آتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ویسے تو ایسے لوگوں کے خلاف قوانین موجود ہیں اور سخت سزائیں بھی ہیں لیکن یہ لوگ جب پکڑے جاتے ہیں تو یہ متاثرہ افراد کے ساتھ مک مکاؤ کر کے باہر آ جاتے ہیں۔ جیسے حالیہ پکڑے جانے والے ڈاکٹر فواد جو پہلے متعدد بار پکڑے گئے لیکن وہ مک مکاؤ کر کے باہر آتے رہے۔ اب ہم نے یہی کہا ہے کہ اس معاملے میں سٹیٹ کو پراسیکیوشن کرنی چاہیے۔‘
جاوید اکرم کے مطابق ہوٹا قوانین کے مطابق صرف رشتے دار اپنا اعضا دے سکتا ہے لیکن اگر کسی رشتے دار کا عضو میچ نہیں کرتا تو اس کے حوالے سے بھی قانون ہے کہ مریض کیا کر سکتا ہے لیکن اس کا پورا ایک طریقہ کار ہے، پی ہوٹا اور ہسپتالوں کی کمیٹیاں بنتی ہیں لیکن وہ ایک لمبا عمل ہے۔
ان کا کہنا تھا عوام کو بھی اس قانون کا علم ہے اور وہ اس کے لیے درخواست بھی دیتے ہیں لیکن اس میں غلط استعمال کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے اس لیے پی ہوٹا اس کے بارے میں بہت زیادہ سختی کرتا ہے لیکن اس سے بہتر ہے کہ ہم کیڈاویرک ٹرانسپلانٹ (بعد از مرگ کی جانے والی پیوند کاری) کی طرف جائیں جو ساری دنیا میں ہو رہا ہے۔
اس میں ان لوگوں کے اعضا نکال لیں جو برین سٹیم ڈیڈ ہو چکے ہیں اور عوام بطور ڈونر رجسٹر ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اس کے لیے بہت زیادہ مہم چلائی اور بہت عرصے سے چلا رہے ہیں لیکن اس میں خاص کامیابی نہیں ہو سکی۔ ہمارے پاس پورے پنجاب سے صرف پانچ سو ڈونرز رجسٹرڈ ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس میں تھوڑا مذہبی عنصر بھی شامل ہو جاتا ہے جس کے لیے ہم نے جب بھی اس حوالے سے کوئی مہم چلائی یا سیمینار کیے تو ان میں کچھ علما کو بھی ساتھ شامل کیا لیکن عوام میں اس حوالے سے خاص دلچسپی نہیں پائی گئی۔
وزیر صحت کا کہنا تھا، ’اگر ہم بعد از مرگ ٹرانسپلانٹ کی طرف جائیں اور عطیہ کنندگان کا پول بنائیں تو اس پیوند کاری کے غیر قانونی عمل سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔‘
ڈاکٹر ندیم بن نصرت کے مطابق پی ہوٹا کے قوانین میں ایسا کچھ نہیں بتایا گیا کہ اگر کوئی رشتے دار میچ نہیں کر رہا تو پھر پیوند کاری کے لیے عضو کہاں سے لیا جائے 'اب تک یہ غیر قانونی ہے اگر عضو نہیں مل رہا تو نہیں مل رہا۔'
ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ڈونر پولز بننے چاہیے اس پول کو بڑھائیں تاکہ عضو عطیہ کرنے والوں کا دائرہ وسیع کیا جائے۔
’اگر کوئی بغیر پیسوں کے اپنی مرضی سے گردہ دے رہا ہے اور وہ خونی رشتے دار بھی نہیں ہے تو اس کو دینے دیا جائے کیوں روکتے ہیں؟‘
پی ہوٹا کے پاس فی الحال ایسا کوئی بندوبست نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے کسی معاشرے میں آپ کے ڈرائنگ روم میں گردوں کی پیوند کاری نہیں ہو سکتی، میرا سوال یہ ہے کہ یہ لوگ ملزم کو چھوڑتے کیوں ہیں؟
’ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں لا قانونیت ہے۔ اگر قانون ہوتا تو ڈاکٹر فواد جیسے لوگ یہاں ہوتے؟‘
اعضا کا بعد از مرگ عطیہ کیسے ہوتا ہے؟
بعد از مرگ عطیۂ اعضا کے حوالے سے ڈاکٹر ندیم نصرت کا کہنا تھا کہ ’یورپ اور امریکہ میں اگر کوئی ادارہ جو بعد از مرگ ٹرانسپلانٹ کے حوالے سے کام کر رہا ہے وہ ہسپتالوں کو یہ اتھارٹی دیتا ہے اور ہسپتال ڈونر کارڈ جاری کرتے ہیں جس پر لکھا ہوتا ہے کہ میں آرگن ڈونر ہوں۔ اس کارڈ کو لوگ اپنی جیب میں ہر وقت رکھتے ہیں۔
اگر کسی کا ایکسیڈنٹ ہو جائے اور اس شخص کی موت متوقع ہوتی ہے تو ٹرانسپلانٹ کرنے والوں کی ٹیم اس جگہ پہنچتی ہے وہاں وہ ان مریضوں کو ٹیوبیں ڈالتے ہیں اور آئی سی یو میں پہنچا دیتے ہیں اور وینٹی لیٹر لگا دیتے ہیں تاکہ وہ مر نہ جائیں۔
’جب ان مریضوں کے حوالے سے یہ یقین دہانی ہو جاتی ہے کہ ان کا دماغ مر چکا ہے تو پھر ان کے خاندان والوں کو ان کا ڈونر کارڈ دکھا کر ان سے اجازت لی جاتی ہے۔ تب بھی اگر خاندان والے اجازت نہ دیں تو ان کے جسم سے کوئی بھی عضو نہیں نکالا جا سکتا۔ ہمارے ہاں ایسا کوئی سسٹم نہیں ہے۔
پی ہوٹا کیا ہے؟
پنجاب ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹیشن اتھارٹی (PHOTA) کی آفیشل ویب سائٹ پر فراہم کردہ معلومات کے مطابق یہ ایک صوبائی ریگولیٹر ہے، جسے 2013 میں قائم کیا گیا تھا اس وقت جب صوبہ پنجاب میں انسانی خلیوں، اعضا اور بافتوں کی غیر قانونی تجارت اور پیوند کاری کے کلچر کا انکشاف بڑے پیمانے پر انکشاف ہوا تھا۔
یہ ایک بنیادی صوبائی ادارہ ہے جو اعضا اور سٹیم سیل ٹرانسپلانٹیشن کی نگرانی اور پنجاب میں اعضا کے عطیہ دہندگان کی رجسٹریشن اور عطیہ کو بڑھانے کے اقدامات کے لیے ذمہ دار ہے۔
پی ہوٹا نجی اور سرکاری ہسپتالوں کو ریگولیٹ کرتے ہیں جو طبی علاج کے لیے انسانی خلیات، اعضا اور ٹشوز کو ہٹاتے، ذخیرہ کرتے اور استعمال کرتے ہیں، اور مردہ اور زندہ لوگوں کے عطیات کی تمام منظوریوں کی نگرانی کرتے ہیں۔
یہاں اس بات کو یقینی بنا کر کام کیا جاتا ہے کہ انسانی بافتوں اور اعضا کو علاج کے مقاصد کے لیے محفوظ اور اخلاقی طور پر، اور مناسب رضامندی کے ساتھ استعمال کیا جائے۔
پی پوٹا اپنے رجسٹرڈ ہسپتالوں، معالجین اور کمیونٹیز کو پنجاب ٹرانسپلانٹیشن آف ہیومن آرگنز اینڈ ٹشوز (ترمیم شدہ) ایکٹ 2012 کے نفاذ کے لیے مشغول کرتے ہیں، تاکہ لوگوں کو مناسب ٹرانسپلانٹیشن تک رسائی حاصل ہو اور حفاظت، معیار، عطیہ کی افادیت اور انسانی خلیوں کی پیوند کاری کو یقینی بنایا جا سکے اور غیر قانونی پیوند کاری کو روکا جا سکے۔
ہوٹا ترمیم شدہ ایکٹ 2012 کیا ہے؟
اس حوالے سے ایڈوکیٹ احمرمجید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’یہ قانون 2010 کا ہے لیکن پنجاب کی حد تک اس میں 2012 میں کچھ ترامیم کی گئیں تھیں جو کوئی خاص بڑی ترامیم نہیں تھیں جیسے جہاں جہاں وفاقی حکومت لکھا تھا وہاں پنجاب حکومت لکھ دیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس قانون کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہم اس کا سیکش 14 دیکھیں تو اس میں لکھا ہے کہ مجسٹریٹ کی عدالت تب ہی کوئی کیس چلائے گی جب اس قانون کے تحت بننے والی اتھارٹی مجسٹریٹ کو شکایت درج کروائے۔ یا متاثرہ شخص نے اتھارٹی کو 15 دن کا نوٹس دیا ہو اور اتھارٹی نے ان 15 دن میں کچھ نہ کیا ہو تو پھر وہ مجسٹریٹ کے پاس جا سکتا ہے۔‘
ایڈوکیٹ احمر مجید کے مطابق اس میں براہ راست ایف آئی آر نہیں ہو سکتی بلکہ استغاثہ کی درخواست یا پرائیویٹ کمپلینٹ بنے گی۔ یہی وجہ ہے کہ جب پولیس ملزم کو پکڑتی ہے تو وہ اسے لمبے عرصے تک گرفتار کر کے نہیں رکھ سکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ حالیہ ہونے والے واقعے میں بھی یہی مسئلہ ہے کہ شکایت کا عمل اتنا پیچیدہ اور سست ہے کہ ایسے کیسز میں ملوث افراد کو کوئی سزا نہیں ہو پاتی۔
احمر مجید کا خیال ہے کہ ’جب تک اس جرم کو قابل دست اندازی نہیں کریں گے، سزائیں مزید سخت نہیں کریں گے جیسے کہ اس قانون میں لکھا گیا ہے کہ پہلی بار اگر جرم کا ارتکاب ہو گا تو مجرم کو کچھ سزا دی جائے گی اور دوسری مرتبہ کرے گا تو لائسنس کینسل ہو گا۔ ’جب آپ لوگوں کو اس طرح کی ڈھیل دے دیتے ہیں تو لوگوں کو ایسی غیر قانونی عوامل کا موقع مل جاتا ہے یہاں تو پہلی مرتبہ سزا ملنا ہی مشکل بات ہے تو دوسری مرتبہ سزا تو دور کی بات ہے۔‘
پنجاب ٹرانسپلانٹیشن آف ہیومن آرگنز اینڈ ٹشوز (ترمیم شدہ) ایکٹ 2012 کیا کہتا ہے؟
سیکشن نو کے مطابق ’علاج کے مقصد کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے انسانی اعضا کو نکالنا پیوند کاری کی ممانعت ہے۔ کوئی عطیہ دہندہ اور کوئی بھی شخص جو کسی انسانی اعضا کونکالنے کا اختیار دینے کا اختیار رکھتا ہے، علاج کے مقاصد کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے کسی انسانی عضو کو نکالنے کی اجازت نہیں دے گا۔‘
سیکشن دس کے سب سیکشن ایک میں کہا گیا ہے کہ جو شخص کسی بھی طبی ادارے یا ہسپتال کو یا اس میں اپنی خدمات پیش کرتا ہے اور جو پیوند کاری کے مقاصد کے لیے کسی بھی انسانی عضو کو نکالنے میں کسی بھی طرح سے کام کرتا ہے، اس کے ساتھ تعاون کرتا ہے یا اس کی مدد کرتا ہے۔ بغیر اختیار کے، قید کی سزا دی جائے گی جو دس سال تک ہو سکتی ہے اور جرمانہ جو کہ دس لاکھ روپے تک ہو سکتا ہے۔
اس کا سب سیکشن دو کہتا ہے جہاں سب سیکشن ایک کے تحت سزا یافتہ کوئی بھی شخص رجسٹرڈ میڈیکل پریکٹیشنر ہے، اس کے نام کی اطلاع پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو بھی دی جائے گی تاکہ مناسب کارروائی کے لیے اس کا نام ایک مدت کے لیے کونسل کے رجسٹر سے ہٹا دیا جائے۔ پہلے جرم کے لیے تین سال اور اس کے بعد کے جرم کے لیے مستقل طور پر۔
اس قانون کے سیکشن 11 اور اس کے سب سیکشنز کے مطابق انسانی اعضا میں تجارتی لین دین کی سزا قید دی جائے گی جو دس سال تک ہو سکتی ہے اور دس لاکھ روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔