پاکستان کا ڈراما ہو، فلم، میوزک یا فیشن گذشتہ 22 سال سے لکس سٹائل ایوارڈز ہر شعبے میں بہترین کارکردگی دکھانے والے فنکاروں کو حوصلہ افزائی کی غرض سے اعزازات سے نوازتا آیا ہے، جس کے لیے تقریب کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ تاہم لکس سٹائل ایوارڈز پر ہمیشہ سوالیہ نشان اٹھتے رہے ہیں، جو نامزدگیوں یا اعزازات حاصل کرنے والوں سے متعلق ہوتے ہیں۔
اس سال چھ اکتوبر کو ہونے والے لکس سٹائل ایوارڈز پر بھی کئی سوالات اٹھائے گئے ہیں، جو صرف سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے ہی نہیں بلکہ ایونٹ میں موجود پاکستان کے نامور ستاروں نے بھی اعتراضات کا اظہار کیا۔
فرحان سعید اور سجل علی جیسے بڑے نام بھی اعتراضات کرنے والوں میں شامل ہیں، جنہوں نے شو سے متعلق مایوسی کا اظہار کرنے کے لیے انسٹاگرام کا سہارا لیا۔
اداکار و گلوکار فرحان سعید نے لکس سٹائل ایوارڈز میں اپنی اہلیہ عروہ حسین کے ساتھ نہ صرف شرکت کی بلکہ مایا علی کے ساتھ خوبصورت ڈانس پرفارمنس بھی دی، لیکن تقریب کے اختتام کے بعد انسٹا پوسٹ پر اپنی تصاویر شیئر کرتے ہوئے مایوسی کا اظہار کیا اور شو کو ’فکسڈ‘قرار دیا۔
فرحان نے لکس سٹائل ایوارڈز 2023 کا ہیش ٹیگ کا استعمال کرتے ہوئے لکھا: ’اگر شو پہلے سے ہی طے کرنا ہوتا ہے تو کم سے کم تھوڑی ذہانت سے تو ہونا چاہیے۔‘
انہوں نے کہا: ’میں یہ اپنے لیے نہیں کہہ رہا لیکن ہر کوئی جو محنت کرتا ہے وہ جیتنے کے برابر مواقعوں کا مستحق ہے۔ میں یہ ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کے لیے کہہ رہا ہوں جو ہماری انڈسٹری میں شامل ہونے کے خواہش مند ہیں! میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ان لوگوں کا ہم پر اعتماد برقرار رہے۔‘ اور آخر میں انہوں نے اپنے مداحوں سے کہا کہ ان کی محبت ان کا سب سے بڑا ایوارڈ ہے۔
فرحان سعید کی اس پوسٹ پر کئی نامور ناموں نے بھی تائید کرتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔
اداکارہ ارمینہ خان نے لکھا کہ یہ تمام عمل پسند ناپسند پر مبنی تھا اور اس کے پیچھے ایک دوسرے کی تعریفیں کرنا اور اپنی اہمیت کے اظہار کی سوچ کارفرما تھی۔ ’مجھے خوشی ہے کہ کسی نے ان کے منہ پر یہ بات کہی ہے۔‘
ماڈل صوفیا خان نے صرف اتنا کمنٹ کیا کہ لکس کبھی بھی فیئر نہیں رہا۔
اداکارہ رابعہ کلثوم بھی ایوارڈز کی تقریب سے مایوس نظر آئیں۔ انہوں نے اپنے طویل کمنٹ میں لکھا کہ ’میرے خیال میں اس وقت تشویش کا سب سے بڑا نکتہ وہ لوگ نہیں ہیں جو انڈسٹری میں شامل ہونے کے خواہش مند ہیں، بلکہ وہ ہیں جو پہلے سے ہی یہاں کام کر رہے ہیں اور اپنا نام بنانے کے لیے سخت محنت بھی کر رہے ہیں، لیکن پھر بھی ان کی شناخت نہیں ہو سکی۔ کیا ہو گا اگر وہ سات سے 10 سال اچھا کام کرنے کے بعد انڈسٹری چھوڑ دیں؟ اگر کوئی اچھا کام کر رہا ہے تو اس کی تعریف کرنا ایوارڈ دینا اور اسے سراہنے کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک مخصوص گروپ تمام ایوارڈز کو مینج کر کے نامزدگیوں کے لیے بے معنی وقت کا انتخاب کر کے ایوارڈز اپنے پسندیدہ لوگوں کو دے دیتا ہے۔ اگر پسندیدہ کو نہ بھی دیا جائے تو ان لوگوں کو دے دیا جاتا ہے جن سے انہیں مستقبل میں فائدہ ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
اداکارہ دانیہ انور نے کہا کہ نہ صرف نئے آنے والوں کے لیے بلکہ کیا یہ کسی کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی نہیں ہے جو کئی سالوں سے کام کر رہے ہیں لیکن مہمانوں کی فہرست انسٹاگرام سٹائلسٹ اور انفلونسرز سے بھری ہوئی تھی۔
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ خوش قسمتی سے سوشل میڈیا کے ذریعے سے اب ہم سب جانتے ہیں کہ مقبول فاتح کون ہیں۔
فرحان سعید کے بعد سجل علی بھی سوشل میڈیا کے میدان میں آئیں اور اپنی آواز اٹھاتے ہوئے انسٹا سٹوریز پوسٹ کیں، جن میں انہوں نے لکس سٹائل ایوارڈز کی انتظامیہ سے جہاں چند شکایات کے ساتھ سوالات کیے وہیں کچھ تجاویز بھی پیش کیں۔
سجل علی نے لکھا کہ ایوارڈ شوز فن اور فنکاروں کی حوصلہ افزائی کا ایک بہترین طریقہ ہیں، لیکن میں لکس اسٹائل ایوارڈز اور ان کی جیوری سے درخواست کرتی ہوں کہ کم از کم ان لوگوں کو نامزد کریں جنہوں نے شاندار کام کیا ہے۔ ’ایک فنکار کے طور پر یہ میرے لیے بہت مایوس کن ہے کہ لکس سٹائل معمول کے مطابق ان فنکاروں کو نظر انداز کرتا ہے جو بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سجل علی نے اپنی پوسٹ میں کئی اداکاراؤں کے نام بھی شامل کیے جن کو بہترین کارکردگی کے بعد بھی کسی کیٹیگری کا حصہ نہیں بنایا گیا، جن میں مہوش حیات ، عشنا شاہ اور زارا نور عباس شامل ہیں۔
سجل نے سوال کیا کہ آخر جیوری کے ارکان کون ہیں؟ کیا وہ ہمارے شوز بھی دیکھتے ہیں؟ یا وہ صرف یہ دیکھ کر نامزدگیاں کرتے ہیں کہ کون کتنا مقبول ہے؟ ایوارڈ نہ جیتنا ایک چیز ہے لیکن اگر آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے پھر بھی نظر انداز کر دئیے جائیں تو صرف فنکار کے لیے نہیں بلکہ ہم سب کے لیے افسوسناک ہے۔
انہوں نے لکس سٹائل ایوارڈز کی انتظامیہ سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ تکنیکی ٹیموں کو بھی اعزازات سے سراہنے کی ضرورت ہے جو سخت محنت سے ہم اداکاروں اور دیکھنے والوں کے لیے جادو کا کام کرتے ہیں۔
ان کی تیسری درخواست یہ تھی کہ ڈرامے میں معاون اداکاراؤں کی کیٹیگری بھی شامل کی جائے ، کیونکہ وہ اتنے بہترین اداکار ہیں جن کی وجہ سے ہمارے ڈرامے مزید جاندار بن جاتے ہیں۔
آخر میں سجل نے ڈرامہ سیریل ’جو بچھڑ گئے‘کے بارے میں سوال کرتے ہوئے اپنی بات کا اختتام کیا کہ وہ کیسے نامزد نہیں ہوا؟
جیو پر نشر کیا جانا والا ڈرامہ سیریل ’جو بچھڑ گئے‘ سقوط ڈھاکہ پر مبنی کہانی تھی، جس میں مایا علی اور وہاج علی نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
سال 2019 میں بھی اس لکس سٹائل ایوارڈز کی نامزدگیاں تنازع کا شکار ہوئی تھیں جس میں لوگوں کا کہنا تھا کہ ان فنکاروں کی نامزدگیوں کا کیوں دفاع کیا جا رہا ہے، جن پر جنسی ہراسانی کے الزامات ہیں؟ جبکہ 2022 میں ٹیلی ویژن، فلم اور میوزک کی کیٹیگریز کے لیے نامزدگیوں کا اعلان کرتے ہوئے ایک پوسٹ کی گئی تھی، جن میں موسیقی کی 82 نامزدگیوں میں کوئی خاتون شامل نہیں تھیں۔
اس پوسٹ کو تنازع کھڑا ہونے کے بعد ہٹا دیا گیا تھا کیونکہ ایوارڈز کی انتظامیہ نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ ’سبمیشنز‘ تھیں نامزدگیاں نہیں۔