پاکستانی فلم، ٹی وی ، موسیقی، اور فیشن کی رنگا رنگ دنیا کو روشن رکھنے میں گذشتہ 22 سال سے لکس سٹائل ایوارڈز کا کردار یقیناً بہت اہم رہا ہے۔
سب سے اہم بات یہ کہ ایوارڈز ہر سال منعقد ہوتے ہیں، چاہے بڑی تقریب کریں، یا مختصر تقریب میں اعزازات دیے جائیں، شائقین کو ان کا ہمیشہ انتظار رہتا ہے۔
جمعے کی شب کراچی میں منعقد ہونے والے لکس سٹائل ایوارڈز کی تقریب کئی حوالوں سے یادگار اور دیدہ زیب تھی، جس میں ایوارڈز کے علاوہ مایا علی، علی ظفر اور صبا قمر کے ساتھ ساتھ مامیا شاہ جعفر کے بہترین رقص نے حاضرین کو محظوظ کیا۔
یہ تقریب بہر حال گذشتہ سال ہونے والی تقریب سے بہت بہتر تھی، گذشتہ سال یہ ایوارڈز بہت پھیکے تھے اور کئی بڑے نام تو اس میں تھے ہی نہیں۔
اس مرتبہ نسبتاً کئی بڑے نام شریک ہوئے لیکن اب بھی کرونا کی وبا سے پہلی والی رونق ہرگز نہیں ہے۔
حسب معمول تقریب کا آغاز رات 10 بجے کے بعد ہوا، جبکہ دعوت نامے پر اس کا وقت ساڑھے آٹھ بجے درج تھا۔
ابتدا ہی میں شائے گِل اور فیصل کپاڈیا نے جنید جمشید مرحوم کا گانا ’اس راہ پر‘ ری مکس کرکے پیش کیا۔ فیصل کپاڈیا نے کچھ حق ادا کیا مگر شائے گلِ اور ینگ سٹنرز اس میں مکمل ناکام ہی رہے، سچ میں رنگ جما نہیں۔
صبا قمر اور فہد مصطفیٰ نے میزبانی کے فرائض سنبھالے مگر سکرپٹ بہت کمزور رہا، بعد ازاں احمد علی بٹ اور دُرِ فشاں سلیم نے بھی میزبانی کی اور پھر آخر تک یہ چاروں مختلف جوڑیوں کی شکل میں میزبانی کرتے رہے۔ ان سب میں بہترین جوڑی فہد مصطفیٰ اور احمد علی بٹ کو ہی قرار دیا جاسکتا ہے اور کئی مرتبہ محسوس ہوا کہ یہ دونوں سکرپٹ سے ہٹ کر کچھ جملے پیش کر رہے ہیں۔
تقریب کا سب سے بہترین رقص مایا علی نے پیش کیا۔ گانے ’پیلا رنگ‘ پر ان کا رقص شاید کبھی بھول نہیں پائیں۔ انہوں نے فرحان سعید کے ساتھ گانے ’نئی سوچ‘، ’مرجانیے‘ اور ’دل کرے‘ پر بھی رقص کیا جہاں انہوں نے اپنی انفرادیت برقرار رکھی، تاہم فرحان سعید نہ تو ان کے انداز کو سمجھ پائے اور نہ ہی ان کے ساتھ جچے۔
شاید یہ لکس کی تاریخ کی سب سے ناکام پرفارمنس والی جوڑی رہی، جہاں ایک جانب بہترین مایا علی جو 100 فیصد مکمل محوِ رقص تھیں، دوسری جانب اٹکتے ہوئے فرحان سعید۔
اس شب کی دوسری بڑی پرفارمنس علی ظفر اور مامیا شاہ جعفر کی تھی، جو ہر لحاظ سے بہترین تھی۔ علی ظفر ایک تجربہ کار پرفارمر ہیں اور مامیا شاہ جعفر نے ان کا مکمل اور بھرپور ساتھ دیا جو قابلِ ستائش ہے۔
رات کی تیسری سب سے دلچسپ اور اہم پرفارمنس صبا قمر کی تھی جنہوں نے ریما خان کو خراجِ تحسین پیش کیا۔
صبا قمر نے ریما خان کی فلم مِس استنبول کے گانے ’یہ جو چار دنوں کا ساتھ‘، ’دل لے جا نکی جئی ہاں کر کے‘ اور ان کی فلم نکاح کا گانا ’ریشم کا ہے لہنگا میرا‘ پر بہترین پرفارم کیا۔
صبا قمر نے ریما خان کی فلم مِس استنبول کے گانے ’یہ جو چار دنوں کا ساتھ‘ کے علاوہ ’دل لے جا نکی جئی ہاں کر کے‘ اور ان کی فلم نکاح کا گانا ’ریشم کا ہے لہنگا میرا‘ پر بہترین پرفارم کرتے ہوئے عمدگی سے رقص پیش کیا۔
تاہم یہاں شو کی انتظامیہ سے ایک فاش غلطی ہوئی کہ فلم ’نکی جئی ہاں‘ کا گانا ’نکی جئی ہاں‘ ریما خان پر فلمایا ہی نہیں گیا تھا۔
یہ گانا تو صائمہ اور معمر رانا پر فلم بند ہوا۔ اگر ریما کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہی تھا تو کم از کم ان سے ہی پوچھ لیتے کہ کون سے گانے ان پر فلمائے گئے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو یہ کسی فنکار کی تضحیک کا باعث ہے کہ آپ 200 سے زیادہ فلمیں کرنے والی ریما کے تین گانے نہیں ڈھونڈ سکے، یہ افسوس نہیں شرمندگی کا باعث ہے۔
جو کمی ان کی میزبانی میں تھی وہ یہاں انہوں نے پوری کر دی۔ خاص بات یہ تھی کہ آخری گانے پر خود ریما بھی اٹھ کر ان کے ساتھ سٹیج پر آگئیں اور دونوں نے ایک دوسرے سے بھرپور انداز میں دوران رقص ربط رکھا، جو چار چاند لگا گیا۔
ریما کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے بعد انتظامیہ کی جانب سے انہیں’لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ‘ سے نوازا گیا۔
اسی طرح اس بار سماج میں تبدیلی لانے کا کردار ادا کرنے پر مرینہ خان کو خصوصی اعزاز سے نوازا گیا۔ خواتین کے لیے یہ خصوصی ایوارڈ گذشتہ سال ہی شروع کیا گیا تھا۔
تقریب کی جھلکیوں میں میرا سیٹھی کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی، میرا سیٹھی نے شو کا واحد مزاحیہ خاکہ کیا۔ پہلے فہد مصطفیٰ اور پھر احمد علی بٹ سے ان کی دلچسپ جملے بازی اور نوک جھونک ہوئی۔ میرا سیٹھی نے محفل کو صحیح معنوں میں کشتِ زعفران بنا دیا تھا۔
کیفی خلیل نے ’کہانی سنو‘ اور ’کنا یاری‘ بھی پیش کیا، مگر مقبولیت کے باوجود کہانی سنو ایک غمزدہ گانا ہے، جو خوشی کے موقع پر مناسب نہیں لگتا۔ ’کنا یاری‘ کے بلوچی گانے پر نہ تو عبدالوہاب بگٹی تھے اور نہ ہی ایوا بی، ایسے میں درجنوں رقاص کھڑے کرکے ماحول نہں بن جاتا۔ تقریب میں عبدالوہاب بگٹی اور ایوا بی کی شدید کمی محسوس ہوئی۔
کس کس نے ایوارڈ اپنے نام کیا؟
اب بات کرتے ہیں ایوارڈز کی، سب سے بڑے ایوارڈز فلم کے ہوتے ہیں جو ہمیشہ آخر میں دیے جاتے ہیں۔
فلم کے شعبے میں دو ناقدین اور چار عوامی ووٹ کے ایوارڈز تھے۔ ناقدین کی جانب سے بہترین فلم اور بہترین ہدایت کار کا ایوارڈ سرمد کھوسٹ اور ان کی فلم ’کملی‘ کو ملا۔
اس کے بعد بہترین فلمی نغمہ ’پیلا رنگ‘ قرار پایا۔ بہترین اداکارہ فلم ’کملی‘ کے لیے صبا قمر تھیں اور بہترین فلم کا ایوارڈ ’قائدِ اعظم زندہ باد‘ کو ملا جو فضہ علی مرزا اور نبیل قریشی نے ایک ساتھ وصول کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پھر جب پونے چار گھنٹوں سے جاری تقریب اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی، بس آخری کیٹیگری یعنی بہترین فلمی اداکار کے نام کا اعلان ہونا تھا، فہد مصطفیٰ، ہمایوں سعید، فرحان سعید، عمران اشرف اور فیروز خان کے ناموں کی نامزدگی کا اعلان ہوا۔
اس موقعے پر ہال فہد مصطفیٰ کے نام کے نعروں سے گونج رہا تھا، آصف رضا میر نے جیتنے والے کا نام لینے سے پہلا ایک ہلکا سا وقفہ لیا، ایک خاموشی سی شائقین پر طاری ہوئی، فہد مصطفیٰ اپنی نشست سے آدھے اٹھ چکے تھے کہ میزبان نے کہا: ’فیروز خان فار ٹچ بٹن۔‘
ہال میں تو جیسے سکتہ طاری ہوگیا، یوں محسوس ہوا کہ پڑھنے والے نے کوئی غلطی کر دی ہے۔
آصف رضا میر کے ساتھ کھڑی ہوئی ریما نے پوچھا کہ کیا واقعی یہ نام ہے، انہوں نے کہا، ہاں! یہی نام ہے۔
اس پر ہال میں کچھ بجھی بجھی سی تالیاں بجیں اور چونکہ فیروز خان موجود نہیں تھے، اس لیے ان کا ایوارڈ عمران اشرف نے وصول کیا جس کے بعد یہ تقریب ختم ہوگئی مگر اپنے پیچھے بہت سے سوال چھوڑ گئی۔
’ٹچ بٹن‘ میں فیروز خان کی نامزدگی پر ہی سوال اٹھے تھے کہ یہ مرکزی کردار تھا یا نہیں، لیکن ایوارڈ ملنا بالکل سمجھ سے باہر ہے۔
تقریب میں دیے گئے دیگر ایوارڈز کی بات کی جائے تو ٹی وی ڈراموں کی کیٹیگری میں سب سے زیادہ ایوارڈز تھے۔
یہاں پر میدان اس سال بھی یمنیٰ زیدی نے مار لیا، جنہوں نے ڈرامہ ’بخت آور‘ کے لیے ناقدین اور عوام دونوں کیٹگیری میں بہترین اداکارہ کا ایوارڈ اپنے نام کیا۔ یمنیٰ مسلسل تین سالوں سے بہترین اداکارہ کا ایوارڈ جیتتی آرہی ہیں۔
ڈرامے کے دیگر شعبوں میں ناقدین کی رائے میں بہترین مصنف اور بہترین ہدایت کار کا ایوارڈ ’سنگِ ماہ‘ قرار پایا، جو بالترتیب مصطفیٰ آفریدی اور سیفی حسن کو ملا۔
بہت سے نامور اداکاروں سے مزین ڈرامے ’صنف آہن‘ نے بہترین ڈرامے کا ایوارڈ اپنے نام کرلیا۔ جبکہ بہترین ابھرتی ہوئی فنکارہ کا اعزاز دنانیر مبین کے نام رہا۔
عوام کے ووٹ سے ملنے والے ٹی وی ڈراموں کے اعزازات میں بہترین پس پردہ موسیقی کا اعزاز ’میرے ہم سفر‘ کے لیے نوید ناشاد نے وصول کیا۔
اسی سلسلے میں بہترین ڈرامہ، ’کیسی تیری خود غرضی‘، بہترین طویل دورانیے کا سیریل، ’بیٹیاں‘ قرار پائے جبکہ ٹی وی کے مقبول اداکار کا ایوارڈ ارسلان نصیر کے نام رہا۔
موسیقی کے شعبے میں چار میں سے تین ایوارڈ ’پسوڑی‘ کے نام رہے، جن میں بہترین گلوکار، سب سے زیادہ سنا جانا والا گانا اور بہترین میوزک پروڈیوسرز کے ایوارڈ تھے۔ جبکہ’بہترین گانے‘ کا ایوارڈ کیفی خلیل کو ان کے گانے ’کہانی سنو‘ پر ملا۔
فیشن کے شعبے کی بات کی جائے تو اس بار کچھ دلچسپ کام ضرور ہوئے۔ ان ایوارڈز کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک خاتون علینہ نقوی کو سال کی بہترین فوٹوگرافر کا ایوارڈ ملا۔ لکس کی 22 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی خاتون کو یہ ایوارڈ ملا ہے۔
فیشن میں ابھرتی ہوئی بہترین ماڈل عبیر اسد قرار پائیں، جبکہ سال کی بہترین فیشن ماڈل ماہا تہرانی ٹھہریں۔
بہترین سٹائلسٹ تابش خواجہ جبکہ ہیئر اور میک اپ کے شعبے میں یہ اعزاز سنیل نواز لے گئے۔
اس مرتبہ ’کچھ مختلف‘ کرنے کے چکر میں لکس والوں نے اپنے ایوارڈز کو کافی مسائل میں الجھا لیا تھا، ریڈ کارپٹ عجیب دائرے کی شکل میں بنایا گیا، جس کا شدید نقصان ہوا اور بہت سے میڈیا نمائندگان اکثر بڑے ناموں اور اہم شوبز شخصیات سے بات کرنے سے محروم رہ گئے۔
2023 میں منعقد ہونے والے لکس سٹائل ایوارڈز کچھ تلخ اور بہت سے شیریں یادیں چھوڑ گئے۔ پاکستان میں ویسے بھی اِکّا دُکّا ایوارڈ شو ہوتے ہیں، ایسے میں لکس اسٹائل ایوارڈز بہرحال ایک غنیمت ہیں۔