صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ سے تعلق رکھنے والی پاکستانی خاتون زینت بیگم کا الزام ہے کہ حکومتی تقاضے اور قوانین ’مجھے میرے شوہر اور میرے تین بچوں کو والد سے محروم کر رہے ہیں۔‘
یہ بات 30 سالہ زینت بیگم نے پشاور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے ایک دن بعد انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کی جس میں عدالت نے ان کے افغان شوہر کی پاکستانی شہریت کے معاملے پر وزارت داخلہ کو مروجہ قانون کے مطابق کارروائی کرنے کا حکم دیا۔
پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس عبدالشکور اور جسٹس سید ارشد علی نے 14 اکتوبر کو فیصلہ سناتے ہوئے جہاں افغان شوہر محمد طاہر کو وزارت داخلہ میں درخواست جمع کرنے کا کہا وہیں موخر الذکر کو یہ کیس جلد از جلد نمٹانے کا حکم دیا۔
خاتون کے وکیل کے مطابق 'کیس ختم ہو چکا ہے اور وزارت داخلہ کو اس خاتون کے افغان شوہر کو پاکستانی شہریت کے ساتھ ساتھ شناختی کارڈ بھی فوری طور پر فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
متاثرہ خاتون نے عدالت کے سامنے اپنی روداد سناتے ہوئے کہا تھا کہ دو الگ ممالک کے باشندے ہونے کے سبب انہیں بے تحاشا مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
تاہم کیس کا عدالتی فیصلہ آنے کے باوجود زینت اور ان کا خاندان پریشان اور غیر یقینی کا شکار ہے۔
زینت بیگم نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ شادی کی 15 سالہ مدت میں وہ اپنے شوہر کے ساتھ محض دس ماہ اکھٹے رہے۔ ’حکومتی احکامات کی وجہ سے میرے افغان شوہر پاکستان نہیں آسکتے اور اسی سبب میرے بچوں کو سکولوں میں داخلہ نہیں مل رہا۔‘
انہوں نے کہا کہ ان کے دس سالہ بڑے بیٹے کوسات سال کی عمر میں سکول میں داخلہ مل گیا تھا، جو اب دوسری جماعت میں پڑھ رہا ہے۔
’اس وقت قوانین اتنے سخت نہیں تھے۔ اس لیے میرے شناختی کارڈ پر فارم ب بن گیا تھا۔ لیکن اب یہ سہولت ختم کر دی گئی ہے۔‘
زینت نے کہا کہ ان کے شوہر محمد طاہر قطر میں بوجہ روزگار کئی سالوں سے مقیم ہیں۔ ’میرے والد کی رضامندگی سے یہ شادی طے پائی۔ شادی کے بعد میرے شوہر تین ماہ پاکستان رہے، جس کے بعد وہ ہر تین یا چار سال بعد دو ماہ تو کبھی ڈیڑھ ماہ پاکستان میں گزارتے ہیں۔‘
زینت بیگم کے مطابق ’ایسا پہلی دفعہ ہورہا ہے کہ میرے شوہر کو پاکستانی ویزہ نہیں دیا جا رہا۔ اب نہ وہ پاکستان آسکتے ہیں نہ یہاں سے افغانستان جاسکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اس شادی سے ان کے تین بچے ہیں، جن کو والد کی غیرموجودگی میں مختلف مشکلات درپیش ہیں۔
’پچھلے ڈھائی سال سے وہ پاکستان نہیں آ سکے ہیں۔ انہیں ویزہ نہیں دیا جارہا ہے۔ جبکہ طاہر قطر میں بال بچوں کو اپنے پاس بلانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔‘
زینت کے والد نورانی گل نے بھی انڈپینڈنٹ اردو سے بات کی۔ انہوں نے کہا کہ بیٹی کی شادی شدہ زندگی میں مسائل نے انہیں علالت کے باوجود بھاگ دوڑ پر مجبور کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’میں بیمار ہوں۔ بیٹی کا سسرال افغانستان اور شوہر قطر میں ہے اسی لیے میرے ساتھ رہتی ہے۔‘
اکتوبر 2022 میں پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ ایک پاکستانی خاتون کا افغان شوہر پاکستان اوریجن کارڈ کا حق دار ہے۔ اس وقت کے دو رکنی بینچ نے یہ حکم پاکستانی خاتون ثمینہ روحی کی درخواست پر دیا تھا جس نے اپنے افغان شوہر نصیر محمد کی شہریت کی درخواست کی تھی۔
پاکستان کی شہریت کا قانون 1951 کی شق 10 کسی پاکستانی مرد کی غیرملکی بیوی کو تو شہریت کا حق دیتا ہے لیکن کسی پاکستانی بیوی کے شوہر کو یہ حق نہیں دیتا۔ اکثر ماہرین اسے جنس کی بنیاد پر امتیازی قانون قرار دیتے ہیں۔
پشاور ہائی کورٹ نے ایک درخواست پر اکتوبر 2022 میں شہریت کے قانون کے سیکشن دس کو ختم کرنے کا فیصلہ دیا تھا۔
زینت کے وکیل ایڈووکیٹ سیف اللہ محب کاکاخیل کے مطابق دائر کردہ درخواست میں ہائی کورٹ سے استدعا کی گئی تھی کہ سیٹیزن شپ ایکٹ (قانون شہریت) کے سیکشن 10 کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا جائے جو پاکستانی خواتین کو کسی غیر ملکی شہری سے شادی کے بعد ان کے شریک حیات کو پاکستانی شہریت دینے سے روکتا ہے۔
سیف اللہ محب کاکا خیل نے انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ شادی کی بنیاد پر شہریت دینے کے حوالے سے فیڈرل شریعت کورٹ کا فیصلہ آگیا تھا لیکن اس کے باوجود قانون میں تبدیلی نہیں آئی۔
’اس سے قبل غیرملکیوں کے لیے پاکستان اوریجن کارڈ (پی او سی) رائج تھا۔ لیکن قومی شناختی کارڈ ملنے کے بعد ایک شخص مستقل شہری بن جاتا ہے۔‘
حکومت پاکستان غیرملکیوں کو پاکستانی شہریت دینے کا معاملہ کبھی فوری ترجیع نہیں رہا ہے۔ اس خصوصی اشو پر بھی اس نے کبھی کوئی واضح پالیسی بیان نہیں دیا ہے۔